نیویارک میں رہائش کا مسئلہ اتنا زیادہ سنگینی اختیار کر گیا ہے کہ یہاں کا ہر باسی اِس سے غیر متعلقہ نہیں رہ سکتا، سب سے اوّل تو مکانات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں اور دوئم کرائے کا مکان ملنا اتنا دشوار ہوگیا ہے کہ کوئی اِس کے بارے میںسوچ بھی نہیں سکتا،دوسرے اسٹیٹ کے لوگ تو نیویارک منتقل ہونے کے بارے میں سوچتے ہی دس کوس دور بھاگتے ہیں،خود نیویارک سے تعلق رکھنے والے اسّی فیصد بر سر روزگار نوجوان مکان خریدنے کے بارے میں تصور بھی نہیں کرتے ،نیویارک کی حکومت کے ارباب حل و عقد اِس کے حل کیلئے بارہا کوشش کرتے رہے، مثلا”اُنہوں نے اِس بارے میں سوچا کہ کیوں نہ کمرشل بلڈنگیں رہائشی عمارتوں میں تبدیل کردی جائیں لیکن یہ تو اُس وقت کی باتیں تھیں جب پینڈیمک عروج پر تھا اور مین ہٹن میں بہت سارے دفاتر کی بلڈنگیں خالیں تھیں،دفاتر کو رہائشی بلڈنگوں میں تبدیل کرنے میں بے شمار پیچیدگیاں بھی سامنے آگئیںلیکن اب موزی امراض کا خاتمہ ہوچکا ہے اور کمپنیوں نے مہنگے کرائے پر دفاتر کرائے پر لینا شروع کردیئے ہیں،حکومت نے بے خانماں لوگوں کو بھی ترغیب دی کہ وہ کسی دوسرے اسٹیٹ میں جاکر آباد ہوجائیں، لیکن اِس ضمن میں خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی . تازہ ترین صورتحال میں کروڑوں کی تعداد میں مائیگرنٹس گزشتہ چند ماہ کے دوران یہاں آکر آباد ہوگئے ہیں،لہٰذا نیویارک کی حکومت کیلئے رہائش کا مسئلہ اوّل ترین اور سنگین بن گیا ہے، ماضی میں اِس مد میں آہستہ آہستہ کام ہوتا رہاہے ، جہاں کہیں بھی کسی بڑے پروجیکٹ کی پلاننگ ہوئی وہاں اُس میں رہائشی بلڈنگوں کو بھی شامل کرلیا گیالیکن مسئلہ جتنا وسیع ہے اُس کے مقابلے میں حل انتہائی قلیل رہا ہے لیکن اب نیویارک کی حکومت اور یہاں سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز یکجا ہوکر ہاؤسنگ کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے ایک جامع منصوبہ ترتیب دیا ہے. اُس منصوبے کی ہر شق کو عملی جامہ پہنادیا جائے تو آئندہ پندرہ سال کے عرصہ میں رہائشی یونٹوں میں ایک لاکھ کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے .منصوبے کی تان بان 1955 ء کے اُس منصوبے سے مشابہ ہے جس کے تحت ایک لاکھ رہائشی یونٹس امیگرانٹس، ریفیوجی اور دوسری جنگ عظیم سے واپس ہونے والے سپاہیوں کیلئے تعمیر کئے گئے تھے لیکن نیویارک اسٹیٹ سینیٹ کی جانب سے پیش کردہ بِل اُس منصوبے سے کہیں زیادہ وسیع ہے اور جس کا مرکز صرف نیویارک اسٹیٹ ہے، اِس منصوبے کی ماضی کے منصوبوں سے جداگانہ ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اِس کیلئے ا سٹیٹ کی زمین ڈویلپر کو سستے قیمت یا لیز پر فراہم کی جائیگی اور جو ٹیکس اور پبلک ریویو سے مستثنیٰ ہوگی، نیویارک اسٹیٹ میں اِس ضمن میں ایک خصوصی محکمہ قائم کیا جائیگاجو اِس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے فنانس اور دوسری سہولت فراہم کرے گا۔ 1955 ء کے تعمیری منصوبے کو نیو یارک اسٹیٹ کی دستور ساز اسمبلی میں سینیٹر میچل اور اسمبلی مین الفریڈ لاما نے پیش کیا تھا اور جس کی وجہ موجودہ منصوبہ میچل -لاما 2 کے نام سے موسوم کیا گیا ہے،پروگرام کے تحت تعمیر ہونے والے کنڈوز اور مکانات ایفورڈیبل ہونگے اور مڈل اِنکم ہاؤس ہولڈ ز جن کی سالانہ آمدنی $232,980 سے کم ہوگی، صرف اِس سے مستفید ہو سکیں گے،سینیٹ کا منصوبہ گورنر ہوچل سے ملتا جلتا ہے جو خود بھی اسٹیٹ کی زمین پر رہائشی اپارٹمنٹس بنانے کی خواہشمند ہیں اور جسے اُنہوں نے اپنے بجٹ میں بھی پیش کیا تھا،مبصرین تعمیرات کا یہ موقف ہے کہ ماضی میں حکومت نے ڈویلپرز کو بہت چھوٹ سے نوازا تھا، چند بلڈنگز کی تعمیرات پر اُن کے بہت سارے ٹیکس معاف کئے گئے تھے، لیکن ہاؤسنگ مارکیٹ پر اِس کا کوئی
خاطر خواہ اثر نہیں پڑا تھا،سینیٹ کے ارکان یہ چاہتے ہیں کہ ہاؤسنگ پیکج کے ساتھ یہ پابندی بھی مشروط ہو کہ مالک مکان کرائے داروں کو بلاوجہ ایوکشن کرنے کے اہل نہ ہوں اور مکان کے کرائے میں بے دھڑک اضافہ کرنے پر بھی پابندی عائد کی جائے تاہم یہ بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ سینیٹرز کی پیش کردہ بِل کی زیر ماتحت کتنے کنڈوز اور مکانات تعمیر ہونگے، ابتدائی طور پر اگر یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہوگیا تو پھر اِس کا سلسلہ جاری رہیگا، نیویارک اسٹیٹ میں آنے والی بے شمار تبدیلیوں سے پاکستانی کمیونٹی تاریکی میں ڈوبی رہتی اور پھر وہ یہ توقع کرتی ہے کہ اُن کیلئے پکا پکایا ہوا کھانا دسترخوان پر رکھ دیا جائیگا، خدارا! اگر آپ نیویارک میں مالک مکان بننا چاہتے ہیں تو فوری طور پر ایفورڈیبل ہاؤسنگ کیلئے درخواستیں دیں اگر آپ تین ون ون پر کال کریں تو وہ آپ کو تفصیلی معلومات فراہم کر دینگے، آپ کو جو کچھ بھی کہا جائیگا آپ اُس پر عمل کریں، گھر جاکر سو نہ جائیں، پاکستانیوں کو ایک غلط فہمی یہ ہے کہ اُنہیں جو کنڈو یا مکان الاٹ کیا جائیگا ،وہ جرائم پیشہ افراد کے مکینوں سے گھِرا ہوگا، سب سے اول تو بات یہ ہے کہ جس کسی کو بھی ایفورڈیبل مکان دیئے جاتے ہیں اُن کی پہلے کریڈٹ جانچ پرتال کی جاتی ہے، اور اُس کے بعد اُن کی آمدنی کے ذرائع معلوم کئے جاتے ہیں جو کوئی بھی مکان خریدتا ہے اُس کی بھی آپ ہی کی طرح کوئی حیثیت ہوتی ہے، وہ کوئی قلاش یا بے خانماں شخص نہیں ہوتا،کوئی ادارہ یا کمپنی کسی بے خانماں فرد کو مکان فروخت کرکے اپنی مٹی پلید نہیں کرسکتی، لہٰذا اگر آپ ایسے خیالات کو دِل سے نکال دیں تو یہی آپ کے مستقبل کیلئے سود مند ثابت ہوگا۔