وزیر اعظم کو آئی ایم ایف کا مجوزہ بجٹ پیش!!!

0
4

وزارت خزانہ نے وزیر اعظم شہباز شریف کو اگلے بجٹ کا مسودہ پیش کر دیا ہے۔یہ بجٹ مسودہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کا تجویز کردہ ہے جس کا کل حجم 18000ارب روپے ہے۔مجوزہ بجٹ میں 9700 ارب روپے قرضوں پر واجب الادا سود کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ماہرین بجٹ کے مجوزہ مسودے کو حکومت کے لئے آزمائش قرار دے رہے ہیں جسے آئی ایم ایف کی جانب سے متعدد سخت مطالبات اور عوام کی توقعات کا بیک وقت سامنا ہے۔ پاکستان میں قرضوں کا بحران تشویشناک حد تک پہنچ گیا ہے۔صرف نو ماہ کے دوران قرضوں پر سود کی ادائیگی میں 205 ارب روپے سے زیادہ اضافہ ہونا حکومت کی آمدنی سے زیادہ ہے۔ سٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق ملک کے مجموعی قرضے اور واجبات 80,086 ارب روپے سے زائد ہو چکے ہیں۔حکومت کے نئے بیل آوٹ پیکج کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں،آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت پر خاصا دباو معلوم ہو رہا ہے کہ وہ اپنے اخراجات کو کم کرے اور قرضوں کے تناسب کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ بجٹ میں غیر رجسٹرڈ تاجروں کے خلاف سخت اقدامات شامل ہوں گے جس کا مقصد انہیں ٹیکس نیٹ میں لانا ہے۔رپورٹس کے مطابق ‘تاجر دوست’ ایپ کے ذریعے رجسٹرڈ نہ ہونے والے کاروباروں کو نوٹس بھیجے جائیں گے اور عدم تعمیل پر انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 182 کے تحت جرمانے کئے جا سکتے ہیں۔ غیر رجسٹرڈ کاروبار کو 10,000 روپے تک جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔مزید برآں، ٹیکس چوری کو روکنے اور محصولات کی وصولی کو بڑھانے کے لیے، بجٹ میں نان فائلرز کی جانب سے کیش نکالنے پر ٹیکسوں میں اضافے کی تجویز کی توقع ہے۔ فی الحال، نان فائلرز پر 50,000 روپے سے زیادہ کی رقم نکلوانے پر 0.6 فیصد ایڈوانس ٹیکس عائد ہوتا ہے۔ گزشتہ ہفتے پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے 24 ویں بیل آوٹ پروگرام پر مذاکرات کا آغاز کیا۔ جس کا آغاز آئندہ بجٹ میں 1.6 ٹریلین روپے (جی ڈی پی کا 1.5 فیصد) سے زیادہ کی متوقع پیشگی مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کے معاملے کے ساتھ ہوا۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی قیادت میں پاکستانی وفد میں گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان جمیل احمد، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو امجد زبیر ٹوانہ اور ان کی متعلقہ ٹیمیں شامل تھیں جبکہ پاکستان میں آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر نے دورہ کرنے والے وفدکی قیادت کی۔ رپورٹس کے مطابق حال ہی میں ختم ہونے والے نو ماہ کے ایس بی اے میں زیادہ تر سپیڈ ورک پہلے سے ہی موجود تھا اور مستقبل کے لئے رہنما اصول بھی عام طور پر موجود تھے۔جی ڈی پی کے کم از کم 1.5 فیصد یا تقریبا 1.6 ٹریلین روپے کی مالی ایڈجسٹمنٹ آنے والے بجٹ میں اضافی محصولات کے ساتھ ساتھ اخراجات کی معقولیت اور نجکاری کے ذریعے کی جائیگی۔ جب کہ اضافی محصولات کے اقدامات مختلف شعبوں کے حصہ میں حصہ ڈالے جائیں گے۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ پنشن اصلاحات پر کام شروع کر دیا گیا ہے ۔ اخراجات کو درست کرنے کے کلیدی اقدامات میں سے ایک ترقیاتی اخراجات کے لیے کم رقم مختص ککرنا ہے، یوں اگلے مالیاتی سال میں ترقیاتی منصوبوں پر کٹ لگنے کا امکان موجود ہے ۔حکومت نے پہلے ہی آئی ایم ایف سے نئے مالی سال سے گیس اور بجلی کے نرخوں میں ایڈجسٹمنٹ کو ‘بروقت’ جاری رکھنے اور اس کے ساتھ ساتھ توانائی کی لاگت میں کمی اور گردشی قرضوں سے نمٹنے کے لیے نجی شعبے کی شمولیت کے لیے کوششیں شروع کرنے کا عہد کر رکھا ہے۔حکومت نے سخت مالیاتی پالیسی کو جاری رکھنے اور سماجی تحفظ اور سرکاری ملکیت والے کاروباری اداروں کو مضبوط کرنے کے علاوہ مارکیٹ پر مبنی شرح مبادلہ کی پالیسی کا وعدہ کیا ہے، حالانکہ بین الاقوامی فنڈ کو سیاسی بدامنی اور جیو پولیٹیکل صورتحال کی وجہ سے اصلاحاتی پروگرام کو بڑے خطرات کی توقع ہے۔ ہفتہ قبل حکومت نے سراکری ملکیت میں کام کرنے والے پچیس اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا۔وزیر اعظم نے اس سلسلے میں متعلقہ وزارتوں کو انتظامات مکمل کرنے کی تاکید کی ہے۔حکومت کا خیال ہے کہ ان اداروں کی نجکاری سے خسارہ پورا کرنے کے اخراجات بچیں گے اور نئی سرمایہ کاری آئے گی۔قرض پاکستان کا سب سے برا مسئلہ بن چکا ہے۔دوسری طرف حکومتیں محصولات میں اضافے کے لئے ٹیکس نیٹ کو توسیع کے نام پر چھوٹے کاروباری یونٹوں کے پیچھے لگی رہتی ہیں جو ابھی اپنے پاوں پر کھڑے نہیں ہوتے۔دولت مند طبقات حکومتی اقدامات سے محفوظ رہتے ہیں، ایک ہزار چھوٹے یونٹوں سے جو ٹیکس لیا جاتا ہے اتنا ایک بڑا یونٹ ادا کر سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ چھوٹے بڑے سب کو ٹیکس ادا کرنا چہئے لیکن ساتھ ضروری ہے کہ بوجھ صرف نچلے طبقات پر نہ ڈالا جائے۔ گردشی قرضہ ایک ایسا معاملہ ہے جو سابق ادوار حکومت میں بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں سے مجرمانہ شرائط ، انہیں غیر ضروری رعائتیں فراہم کرنے اور کئی طرح کے سکینڈلوں سے عبارت ہے۔صارفین سے جانے کس کس نام سے وصول کئے گئے ٹیکس آخر اس گردشی قرض کو ختم کیوں نہیں کر پائے؟سوال ہوتے ہیں لیکن حکومتیں بے حس بنی رہتی ہیں۔کسی ملک کا سالانہ بجٹ شہریوں کی ضروریات اور ریاستی امور میں آسانی کا مالیاتی انتظام فراہم کرتا ہے۔دولت پیدا کرنے کے لئے جب پیداواری عمل کی بجائے قرض پر انحصار کیا جائے گا تو حالات اسی رخ پر استوار ہوں گے جو پاکستان بھگت رہا ہے!
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here