جاگیرداروں، جنرلوں اور ججوں کا گھنائونا کردار !!!

0
22
رمضان رانا
رمضان رانا

پاکستان میں انگریزوں کے پروردہ جاگیرداروں، جنرلوں اور ججوں کی نسلیں اور اولادلیں ہر ادارے اور مقام پر غالب ہیں جن کے باپ دادا ہندوستان کی آزادی کے دشمن تھے جن کو برطانوی سامراجیت اور استعماریت کی حمایت کرنے پر بڑی بڑی جاگیریں زمینیں اور جائیدادیں دی گئی تھیں۔ جس میں آس وقت کے پروفیسر بھی شامل ہیں جن کو ہزاروں خانقاہوں اور امام باڑوں کے نام پر بڑی جاگیریں ملی تھیں جو آج پاکستان کے وسائل قابض ہیں جن کی نسلیں اور اولادیں ملکی سیاست میں پیش پیش ہیں۔ برعکس بھارت میں انگریزوں کے انعام یافتہ تمام جاگیرداروں، نوابوں، راجوں کو ہر قسم کی جاگیروں جائیدادوں اور مراعماتوں سے بیدخل کردیا گیا جو ریاست کا قانون تھا کہ یہ زمین اور جاگیریں ریاست کی ہیں جس کو ریاست جب چاہے واپس لے سکتی ہے مگر پاکستان میں ایسا نہ ہوا کہ آج جاگیرداروں ، وڈیروں کے علاوہ جنرل بھی غیر حاضر جاگیردار بن چکے ہیں۔ جبکہ جج صاحبان کی مراعاتوں کو کتنا مشکل ہے جس کی دنیا بھر میں مثال نہیں ملتی ہے۔ تاہم مزید برآں جنرلوں مطلب فوجی افسران نے انگریزوں کے حکم پر1857کی جنگ آزادی کے متولوں اور آزادی پسندوں کا قتل عام کیا تھا جالیانوالہ پانچ میں بھی فوجیوں نے گولیوں سے بھون دیا تھا۔ جج ججوں نے آزادی پسندوں کو کالے باغوں کی طویل اور پھانسیوں کی سزائیں دی تھیں جس میں پاکستان کے رضا قصوری کے والا جج نواب یار خان نے ہندوستان کی آزادی کے متوالے بہادر اور نڈر حریت پسند بھگت سنگھ کو پھانسی بھی دی تھی۔ جس کا دن پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ تاہم پاکستان کے جاگیرداروں کے علاوہ جنرلوں کی نسلیں اور اولادیں عمر ایوب خان اعجاز الحق، ہمایوںاختر، اسد عمر اور دوسرے لاتعداد لوگوں کی شکل میں سیاست میں محرک پائے جارہے ہیں جو اپنے اپنے باپ اور دادوں کے جنم دن اور برسیاں منانے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ عمر ایوب کے دادا جنرل ایوب خان پاکستان کے پہلے آئین شکن اور آئین منسوخی کے مجرم پائے گئے ہیں جنہوں نے ایک اور اعزازی جنرل سکندر مرزا کے ساتھ مل کر آئین توڑا تھا۔ اسی طرح جنرل یحیٰی خان نے بھی پاکستان کا دوسرا آئین منسوخ کیا جس کے بعد ملک ٹوٹ گیا جن کی اولاد یا نسل ابھی تک منظر عام پر نظر نہیں آئی ہے۔ شاید ان کی جائز اور ناجائز اولادوں اور نسلوں کی شکلوں میں نہ جانے کہاں کہاں اور کون کون ہوگی۔ اگر امریکہ ہوتا تو شاید ڈی این اے کے ذریعے پتہ چل جاتا۔ جنرل ضیاء الحق نے تیسرا آئین کو معطل رکھا جو بن آئین اور قانون ملک پر گیارہ سال تک حکمران بنا رہا جنرل مشرف نے دو مرتبہ آئین معطل کیا جن کو آخر کار خصوصی عدالت نے سزائے موت دی جس پر لاشہ بردار حکومت کو عملدرآمد کرانا مشکل ہے جس میں عدلیہ بھی شامل ہے جس نے سزائے موت کو پہلے روکے رکھا جب وہ مر گئے تو ایل کے خلاف فیصلہ دیا جو بہت بڑا عدالتی فیصلہ ہے جس پر عملدرآمد کے لئے اسی طرح عملدرآمد کرانا چاہئے جس طرح برطانیہ میں قانون توڑنے والوں کو قبروں سے نکال کر ہڈیوں کو پھانسیوں پر لٹکایا گیا تھا بہرکیف جاگیرداروں، جنرلوں اور ججوں کی اولادیں اور نسلیں اپنے باپ دادوں پر فخر کرتی نظر آتی ہیں جن کو یہ بھی نظر نہیں آتا ہے کہ یزید ثانی نے اپنے باپ یزید سے انکار کردیا تھا۔ یا پھر لاتعداد اہل قریش نے اپنے ظالم وجابر باپ دادوں کے خلاف بغاوت برپا کی تھی۔ بہرحال پاکستان میں جاگیرداروں، جنرلوں اور ججوں کی حاکمیت قائم ہے جن کی اپنی اپنی ریاست پاکستان میں ریاستیں قائم ہیں۔ اگر جاگیردار اور وڈیرہ ہاریوں کسانوں اور پھنسارعوں پر ظلم وستم کرتا ہے تو جنرل عوامی وسائل پر قابض ہے جو رہائشی زرگا، مالیاتی اور فشری کا کاروبار کر رہا ہے۔ جبکہ جج اپنے لامحدود غیرآئینی اور غیر قانونی اختیارات کی بدولت ہر حکومت کو اپاہج کرتے ہوئے پوری عوام کو قیدی بنا چکا ہے۔ جن کے سامنے لاکھوں مقدمات دہائیوں سے زیرسماعت میں مگر ان کا کوئی فیصلہ نہیں ہو پا رہا ہے یہی وجوہات میں پاکستانی عدلیہ دنیا کی بدنام زمانہ عدلیہ بن چکی ہے جنہوں نے پاکستان کے آئین شکنوں اور باغی جنرلوں کا ساتھ دیا ہے۔ جنرلوں کے خود ساختہ قانون ایف ایل او اور پی سی او کے تحت حلف اٹھاتے رہے ہیں۔ آئین شکنوں کے سامنے جھکے رہے ہیں جنہوں نے آج انصاف پسند اور بے باک چیف جسٹس فائز قاضی کا گھیرائو کر رکھا ہے جو چاہتے ہیں کہ ان کی ریاست کے اندر تیسری ریاست قائم رہے لہٰذا قاضی عیٰسی اپنے فیصلے نہ کرپائے جس کا کل عوام مطالبہ کرپائیں۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here