رمضان المبارک اور ھم!!!

0
29
شبیر گُل

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تمام مخلوقات میں انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، اس کی فطرت میں نیکی ،بدی، بھلائی اور برائی ، تابعداری وسرکشی ، خوبی وخامی دونوں ہی قسم کی صلاحیتیں اور استعداد یکساں طور پر رکھ دی ہیں۔ انسان سے اچھائی اور برائی دونوں ہی وجود میں آسکتی ہیں۔ ایک انسان سے اچھے اعمال بھی ممکن ہیں اورغلط اعمال بھی، خالق ومالک اور مخلوق کے نزدیک معتبر اور پسندیدہ ہونے کی سب سے بڑی نشانی تقویٰ اور پرہیزگاری ہے ۔ رمضان المبارک ایک ایسا مہینہ ہے جس کی بنیاد ہی تقویٰ اور پرہیزگاری ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:یایہا الذِین امنوا کتِب علیکم الصِیام کما کتِب علی الذِین مِن قبلِکم لعلکم تتقون ایاما معدودات۔ اے ایمان والو! فرض کیا گیا تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ تم پہلی اُمتوں پر کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگاربن جائو،یہ گنتی کے چند روز ہیں۔تقویٰ اختیار کرو۔ تقویٰ کا معنی نفس کو برائیوں سے روکنا ہے۔روزہ اس کا بہترین ذریعہ ہے،رمضان المبارک نیکیوں کے موسمِ بہار کی طرح ہے، اسی لیے رمضان المبارک سال بھر کے مہینوں میں سب سے زیادہ عظمتوں، فضیلتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو اپنی رحمتوں اور برکتوں سے نوازتے ہیں۔ اس مہینہ میں ہر نیکی عمل کا اجرکئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس ماہ میں جب ایمان اور احتساب کی شرط کے ساتھ روزہ رکھا جاتا ہے تو اس کی برکت سے پچھلی زندگی کے تمام صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور جب رات کو قیام(تراویح)اسی شرط کے ساتھ کیا جاتا ہے تو اس سے بھی گزشتہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اس ماہ میں ایک نیکی فرض کے برابر اور فرض ستر فرائض کے برابر ہوجاتا ہے، اس ماہ کی ایک رات جسے شبِ قدر کہا جاتا ہے وہ ہزار مہینوں سے افضل قرار دی گئی ہے۔ رمضان کا روزہ فرض اور تراویح کو نفل(سنت مکدہ)بنایا ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے، اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور خیرخواہی کا مہینہ ہے، اس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے، اس میں روزہ افطار کرنے والے کی مغفرت، گناہوں کی بخشش اور جہنم سے آزادی کے پروانے کے علاوہ روزہ دار کے برابر ثواب دیا جاتا ہے، چاہے وہ افطار ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے ہی کیوں نہ کرائے، ہاںاگر روزہ دار کو پیٹ بھرکر کھلایا یا پلایا تو اللہ تعالیٰ اسے حوضِ کوثر سے ایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہ ہوگا۔ اس ماہ کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے جس نے اس ماہ میں اپنے ماتحتوں کے کام میں تخفیف کی تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ اس کی مغفرت اور اسے جہنم سے آزادی کا پروانہ دیں گے۔ پورا سال جنت کو رمضان المبارک کے لیے آراستہ کیا جاتا ہے۔ عام قانون یہ ہے کہ ایک نیکی کا ثواب دس سے لے کر سات سو تک دیا جاتا ہے، مگر روزہ اس قانون سے مستثنیٰ ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: روزہ صرف میرے لیے ہے اور اس کا اجر میں خود دوں گا۔ روزہ دار کو دو خوشیاں ملتی ہیں: ایک افطار کے وقت کہ اس کا روزہ مکمل ہوا اور دعا قبول ہوئی، اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے روزہ افطار کیا اور دوسری خوشی جب اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہوگی۔ روزہ دار کے منہ کی بو(جو معدہ کے خالی ہونے کی وجہ سے آتی ہے) اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ خوشبودار ہے۔ روزہ اور قرآن کریم دونوں بندے کی شفاعت کریں گے اور بندے کے حق میں دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ روزہ اور قرآن بندے کی شفاعت کرتے ہیں۔ روزہ کہتا ہے کہ اے رب! میں نے اس کو دن بھر کھانے (پینے)اور شہوات سے روکے رکھا تو میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما اور قرآن کہتا ہے کہ(اے رب)میں نے اسے رات کو سونے سے روکے رکھا تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما پس دونوں کی شفاعت قبول فرما لی جائے گی(بیہقی)حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ کا طریقہ یہ تھا کہ جب رمضان آتا تھا تو آپ ہر اسیر کو رہا کر دیتے تھے اور ہر سائل کو کچھ نہ کچھ دیتے تھے۔(بیہقی)رسول اللہ کی شفقت رحم دلی نرمی عطا بخشش اور فیاضی کا جو حال عام دنوں میں تھا وہ تو تھا ہی کہ یہ چیزیں آپ کے اخلاقِ کریمانہ کا حصہ تھیں لیکن رمضان المبارک میں خاص طور پر ان میں اضافہ ہو جاتا تھا۔ اس زمانے میں چونکہ آپ معمول میں کہیں زیادہ گہرائی سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے اور اللہ کے ساتھ آپ کی محبت میں شدت آجاتی تھی اس لئے آپ کی نیکیاں بھی عام دنوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ بڑھ جاتی تھیں۔ جیساکہ خود حضور کا ارشاد ہے کہ عام دنوں میں فرض ادا کرنے کا جو ثواب ملتا ہے وہ رمضان میں نفل ادا کرنے پر ملتا ہے۔ اس لئے آپ رمضان کے زمانے میں بہت کثرت سے نیکیاں کرتے تھے۔ یہاں حضورۖ کے عمل میں دو چیزیں مثال کے طور پر بیان کی گئی ہیں۔ اسیروں کو رہا کرنا اور مانگنے والوں کو دینا۔
رسول اللہ کے اس عمل کے بارے میں کہ آپ رمضان میں ہر قیدی کو رہا کر دیتے تھے محدثین کے درمیان بحثیں پیدا ہوئی ہیں۔ مثلا ایک سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی جرم کی پاداش میں قید ہے تو اس کو محض رمضان کے مہینے کی وجہ سے رہا کر دینا یا سزا نہ دینا کس طرح انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہو سکتا ہے؟ اس بنا پر اس قول کی مختلف توجیہات کی گئی ہیں۔ بعض محدثین کے نزدیک اس سے مراد جنگی قیدی ہیں۔یعنی روزہ ہمدردی اور نرمی پیدا کرتاہے۔حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا تم پر رمضان کا مبارک مہینہ آیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تم پر روزے فرض کئے ہیں۔ اس میں آسمان (یعنی جنت)کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین باندھ دئیے جاتے ہیں۔ اس میں اللہ کی طرف سے ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ جو اس رات کی بھلائی سے محروم رہا وہ بس محروم ہی رہ گیا۔(احمد نسائی)
سید مودودی فرماتے ہیں کہ برکت والا مہینہ اس لئے کہا گیاہے کیونکہ بھلائیاں ترغیب پاتی ہیں۔برکت کے اصل معنی افزائش کے ہیں۔ رمضان کے مہینے کو مبارک مہینہ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کے اندر بھلائیاں نشوونما پاتی ہیں اور نیکیوں کو افزونی نصیب ہوتی ہے۔ اس کے برعکس برائیاں بڑھنے کے بجائے سکڑتی چلی جاتی ہیں اور ان کی ترقی رک جاتی ہے۔ ماہ رمضان کے بزرگ بابرکت ہونے کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ اس کے دنوں گھنٹوں یا منٹوں میں فی نفسہ کوئی ایسی برکت شامل ہے جو لوگوں کو خود بخود حاصل ہو جاتی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ تمہارے لئے ایسے مواقع پیدا کر دیتا ہے۔ جن کی بدولت تم اس کی بے حد وحساب برکات سے فائدہ اٹھا سکتے ہو۔ اس مہینے میں ایک آدمی اللہ تعالیٰ کی جتنی زیادہ عبادت کرے گا اور نیکیوں کے جتنے زیادہ کام کرے گا وہ سب اس کے لئے زیادہ سے زیادہ روحانی ترقی کا وسیلہ بنیں گے۔ اس لئے اس مہینے کے بزرگ اور بابرکت ہونے کا مطلب درحقیقت یہ ہے کہ اس کے اندر تمہارے لئے برکتیں سمیٹنے کے بے شمار مواقع فراہم کر دئیے گئے ہیں۔
حضور نبی کریم جن چیزوں کا اہتمام فرماتے تھے اور امت کو بھی اس کی تعلیم اور تلقین فرماتے تھے:حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے اخیرعشرہ میں شب بیداری فرماتے اپنے گھر کے لوگوں کو بھی بیدار رکھتے۔
رمضان المبارک کا مہینہ گناہوں سے خلاصی اور مغفرت کا مہینہ ہے۔ نجات کا مہینہ اور صبر کا مہینہ ہے، عبادات اور شکر کا مہینہ ہے۔
ایکدوسرے کو معاف کرنے اور درگزر ر کا مہینہ ہے۔ اس میں لیلتہ القدر ہے جو ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔ اس میں اللہ رب العزت کی رحمتیں اور برکتیں برستی ہیں۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے اور رمضان کا روزہ ان میں سے ایک ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک اعرابی نے سوال کیا کہ شریعت کے اہم امور کیا ہیں تو آپ صلہ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان کے روزے، اس نے پوچھا اور کچھ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ نہیں لیکن اگر تم چاہو تو۔ رمضان کا روزہ ہر سال فرض ہے تمام مسلمان عاقل بالغ پر۔ سفر یا مرض کی وجہ سے یہ معاف نہیں ہوتا ہے۔ اگر کوئی رمضان میں روزہ رکھنے پر قادر نہیں ہے تو جب قادر ہو گا تب قضا کرے گا۔ روزہ رکھنے کے لیے مسلمان ہونا اور عورت کا حیض و نفاس سے پاک ہونا ضروری ہے۔ فقہ میں روزہ سے متعلق مفصل احکام موجود ہیں۔ ان میں روزہ کے واجبات، مستحبات، مکروہات، عید الفطر کے احکام، نماز کے اوقات، سحری و افطار کے اوقات و احکام اور روزہ کی قضا وغیرہ جیسے احکام شامل ہیں۔
قارئین ! پوری دنیا کے کفار اس مہنہ کی عظمت و تقدس کو سمجھتے ہوئے روز مرہ کے کھانے پینے کی اشیا ۔ وہاں بسنے والے مسلمانوں کی سہولت کے لئے انتہائی سستی بیچتے ہیں ۔ اسپیشل آفرز دی جاتی ہیں تاکہ مسلمانوں کو آسانی اور سہولت ھو ۔ اس کے برعکس ھمارے ملک پاکستان میں رمضان کے آتے ہی چیزوں کو پر لگ جاتے ہیں ۔ قیمتیں آسمان پر پہنچا دی جاتی ہیں ۔
کھانا پینا چھوڑے کے ساتھ گناہ چھوڑنا بھی ضروری ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جھوٹ بولنا، اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑے۔تو اللہ تعالی کو اس کے کھانے پینے کے چھوڑ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ ناممکن ھے کہ ھم روزہ رکھیں اور کم تولیں۔ ملاوٹ شدہ چیزیں بیچیں۔زخیرہ اندوزی کریں۔بحیثیت پاکستانی زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی غالب اکثریت فرعونی لب و لہجہ کی قائل ہے۔ عالم ھو یا مفتی۔ افسر ھو بزنس مین ، اکثریت افراد اپنے آپ کو عقل کل اور my way is highway سمجھتی ھے۔ ھم نمازیں بھی پڑھتے ہیں۔ شلواریں بھی اونچی باندھتے ہیں ۔ داڑھی بھی رکھتے ہیں۔ صدقات و زکوت بھی دیتے ہیں۔ دوسروں کا مال بھی ہڑپ کرتے ہیں ۔ عمرے بھی کرتے ہیں ۔
بڑے اہتمام سے روزے بھی رکھتے ہیں۔
حالانکہ رمضان المبارک کی بھوک پیاس سے
ہمیں یہ سبق ملتا ھے کہ انسانیت کی خدمت۔ جھوٹ، فراڈ، دھوکہ دہی، منافقت، دونمبری سے اجتناب۔ دوسروں کا مال ،زمین جائیداد،
کو ہڑپ ناکرناسکھاتا ہے۔
پردیسیوں کی محنت کی کمائی پر بہن بھائیوں کا ڈاکہ نہ ڈالنا۔ پوچھنے پر رشتہ ختم کرنے کی دھمکیاں ۔ کیا ہم نے نمازوں اور روزوں سے یہی سیکھا ہے۔رسول خدا فرماتے ہیں کہ تقوی سکھاتا ہے۔
ہم اللہ اور رسول اللہ کی اطاعت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اللہ رب العزت سے نہیں ڈرتے۔ اگر ڈرتے ہوں ہمارے اندر یہ اعمال نہ ہوں۔ ہمارا کردار نماز روزہ سے سبق حاصل کرے۔
قارئین !۔ ہمیں جائزہ لینا چاہئے کہ آیا ہم بھی تو اس منافقت میں مبتلا نہیں ہیں؟
اللہ بارک سے دعا ہے کہ ہماری کمزوریوں کو معاف فرمائے۔ ہمارے معاملات پر درگزر فرمائے۔ اللہ رب العزت قرآن اور احادیث رسول کو سمجھنے اور اس پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here