برطانوی نوآبادیاتی سامراجی طاقت اور جرمن ہٹلر نے جنگ عظیم دوئم میں جنرلوں کے اوپر بڑے جنرلوں کو فیلڈ مارشل کے عہدے عطا کئے جس میں جرمن کے25اور برطانیہ نے چار جنرلوں کو فیلڈ مارشل بنایا تھا تاکہ سالوں پر محیط جنگ عظیم دوم میں فوجی کارروائی مزید تیز کیا جائے جس میں بعض جنرلوں نے بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے تھے یہی وجہ ہے کہ اگر جرمن جیت جاتا تو برطانوی نوآبادیاتی نظام ٹوٹ پھوٹ کر شکار ہوجاتا مگر ایسا نہ ہوا لہذا ہندوستان نے برطانیہ سے امریکہ کی طرح جنگ لڑ کر نہیں مذاکرات کے ذریعے آزادی حاصل کی تھی جس کی وجہ سے تقسیم ہند کے بعد بھی ہندوستان کا گورنر جنرل لارڈمائونٹ بیٹن اور پاکستان کے قائداعظم گورنر جنرل بنے جن کو برطانوی بادشاہ نے نامزد کیا تھا۔ برعکس امریکہ آزاد ہوا تو امریکی سابقہ کالونیوں نے تمام برطانوی عہدوں، عدالتوں، قوانین کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ اس لیے امریکہ نے لاتعداد جنگیں لڑی ہیں جس میں جنگ عظیم دوم بھی شامل ہے مگر اپنے کسی جنرل کو توسیع یا فیلڈ مارشل کا عہدہ نہیں دیا ہے جبکہ سابقہ کالونیوں ہندوستان اور پاکستان نے اپنے جنرلوں کو فیلڈ مارشل کے عہدوں سے نوازا ہے جس میں بھارت نے اپنے سابقہ جنرل مانگشاہ کو1973ء اور جنرل کے ایم گریپ کو1986میں ملازمت کے بعد فیلڈ مارشل کے عہدوں سے نوازا تھا۔ پاکستان میں جنرل ایوب خان نے1956کا آئین توڑ کر اور صدر سکندر مرزا کو پاکستان سے باہر نکال کر1959 میں خود ساختہ فیلڈ مارشل کا عہدہ اپنا لیا جس وقت ملک میں کوئی آئین اور قانون موجود نہ تھا ناہی کوئی عوام کی منتخب حکومت تھی جو آخر کار کلب ٹوٹنے کا سب بنا آج پھر چار دن کی جنگ کے بغیر پاکستان کی سول حکومت نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے سے نواز ہے جو حاضر ڈیوٹی جنرل ہے جن کا رینک اب چار کی بجائے پانچ کہلائے گا جن کے ماتحت تینوں فوجیوں کے چیئرمین چیف آف اسٹاف اور تینوں فوجوں کے سربراہ ہونگے۔ جو آئین اور قانون کے ماہرین پر گراں گزرا ہے کہ وہ عہدہ جس کا پاکستان کے آئین میں ذکر نہیں ہے اسے کیسے اور کیوں اپنایا گیا ظاہر ہے جو حکومت غیر آئینی عہدہ ڈپٹی وزیراعظم اپنا سکتی ہے وہ فیلڈ مارشل کا عہدہ کیوں نہیں عطا کرے گی۔ یہ جانتے ہوئے کہ اس عہدے سے فوجی جنرلوں میں شدید بے چینی پیدا ہوگی جو سالوں سے اپنی ترقی کے خواہش مند ہوتے ہیں جو اب مایوس ہو کر ریٹائر ہوجایا کریں گے۔ علاوہ ازیں پاکستان میں جنرلوں کی توسیع کا سلسلہ بھی جاری وساری ہے جس میں جنرل ایوب خان جنرل یحیٰی خان جنرل ضیاء اور جنرل مشرف نے پہلے ملک کے آئین کو توڑا پھر اپنے فوجی قانون کے تحت طویل مدت تک کمانڈانچیف اور آرمی چیف بنے رہے پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جنگ کی سویلین حکومتوں نے جنرل کیانی، جنرل باجوہ کو توسیع دی جس پر عمل کرتے ہوئے موجودہ لاشہ بردار حکومت نے ایئرفورس کے چیف کو توسیع دی ہے۔ جو نہ جانے کل جنرل عاصم منیر کو بھی مزید توسیع دے کر سابقہ بوڑھے جنرلوں کی طرح جنرل کے عہدے پر قائم رکھیں گے چاہے وہ65سال کے بوڑھے چلنے پھرنے کے قابل نہ رہیں۔ تاہم جونیئر جنرل سے سینئر جنرل نامزد کرنے کی لعنت نے وزیراعظم بھٹو کی جان لے لی۔ نوازشریف کو رسوا کیا جنہوں نے جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کو جونیئر ترین جنرلوں سے آرمی چیف بنایا جنہوں احسان فرمواشی اختیار کرتے ہوئے بھٹو اور نواز حکومتوں کے تختے الٹے تھے جس کو مدنظر رکھ کر جنرل عاصم منیر کو سنیارٹی کی بنیاد پر آرمی چیف بنایا تھا۔ تاکہ کسی سینئر جنرل کا استحصال نہ ہو پائے جو اب پھر فیلڈ مارشل اور توسیع دینے پر اصول کا ستیہ ناس کردیا ہے جس سے جنرل عاصم منیر دوبارہ متنازعہ بن چکے ہیں جن کے خلاف اصولی اور ذاتی مخالفت کا طوفان اٹھ چکا ہے جو ان کے لئے بہتر نہیں ہوگا۔
٭٭٭

![2021-04-23 18_32_09-InPage - [EDITORIAL-1-16] رمضان رانا](https://weeklynewspakistan.com/wp-content/uploads/2021/04/2021-04-23-18_32_09-InPage-EDITORIAL-1-16.png)









