فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ !!!
محترم قارئین! چاندنی رات کا پچھلا پہر تھا مدینے کی گلیوں ہر طرف نور برس رہا تھا۔ پوری آبادی رحمتوں کی آغوش میں محو خواب تھی۔ آسمانوں کے دریچے کھل گئے تھے۔ فضائے بسیوے میں فرشتوں کی آواز دم بدم تیز ہوتی جارہی تھیں عالم بالا کایہ کارواں شاید مدینے کی زمین کا تقدس چومنے آرہا تھا۔ اچانک اسی خاموشی سناٹے میں دور ایک آواز گونجی فضائوں کا سکرت ٹوٹ گیا۔ شبستان وجود کے سارے تار بکھر گئے اور ایمان کی تپش چنگاریوں کی طرح بال بال پھوٹنے لگی میخانہ عشق کا دروازہ کھلا کوثر کی شراب جھلکی اور جذبہ اخلاص کی والہانہ سر مستیوں میں سارا ماحول ڈوب گیا۔ یہ غلامان اسلام کے آقا حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی آواز تھی۔ جس نے ہر گھر میں ایک ہنگامہ شوق برپا کردیا تھا اب مدینے کی ساری آبادی جاگ اٹھی تھی۔ سرور کونین کا مفادی ایک شکستہ گھر کے سامنے آواز دے رہا تھا۔ گلشن اسلام کے شادابی کے لئے خون کی ضرورت ہے۔ آج نماز فجر کے بعد مجاہدین کا لشکر ایک عظیم مہم پر روانہ ہو رہا ہے مدینے کی ارجمند مائیں اپنے نوجوان شہزادوں کا نذرانہ لے کر فوراً بارگاہ رسالت میں حاضر ہوجائیں۔ کلمہ حق کی برتری کے لئے تڑپتی ہوئی لاشوں کی خوشنودی حق کی بشارت مبارک ہو۔ مبارک ہو خون کا آخری قطرہ جو ٹپکتے ہی اسلام کی بنیاد میں جذب ہوجائے۔ ایک ٹوٹے ہوئے دل کی طرح یہ ٹوٹا ہوا گھر ایک بیوہ کا تھا۔ چھ سال کے یتیم بچے کو گود میں لئے ہوئے وہ سور رہی تھی۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی آواز سن کر وہ چونک پڑی۔ دروازے پر کھڑے ہو کر پھر غور سے سنا۔ سنتے ہی دل کی چوٹ ابھر آئی۔ آنکھیں آنسوئوں سے جل تھل ہوگئیں۔ چھ سال کا یتیم بچہ سویا ہوا تھا۔ ماں کو روتا ہوا سن کر اٹھ کھڑا ہوا اور بے تاب ہوگیا۔ عرض گزار ہوا ماں کیوں رو رہی ہو۔ بچے کہ اس سوال پر ماں کا دل اور بھر آیا غم کی چوٹ سے پک بیک جذباتت کا دھارا پھوٹ پڑا بچہ بھی ماں کی حالت دیکھ کر رونے لگا۔ ماں نے بچے کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا اے میرے لعل! مت رو! بدری کی وادی میں ابدی نیند سونے والے اپنے شہید باپ کی روح کو مت تڑپائو۔ مگر بچہ روتا رہا وہ بضد تھا کہ ماں کیوں رو رہی ہے؟ ماں نے بچے کو تسلی دیتے ہوئے کہا! بیٹا! حضرت بلال رضی اللہ عنہ ابھی اعلان کرتے ہوئے گزرے ہیں کہ اسلام کا پرچم دشمنوں کی زد پر ہے۔ آج نماز فجر کے بعد لشکر اسلام میدان جنگ کی طرف روانہ ہو رہا ہے۔ آقاۖ نے اپنے جانبناز وفاداروں کو آواز دی ہے کتنی خوش نصیب ہوں گی وہ مادران ملت جو سپیدہ سحر کی روشنی میں اپنے نوجوان صاحبزادوں کا نذرانہ لئے ہوئے سرکار ورسالت میں حاضر ہوں گی یہ کہتے کہتے ماں کی آنکھیں پھر ڈبڈیا آئیں بچہ ماں کو روتا دیکھ کر مچل گیا ماں نے کہا بیٹا! ضد نہ کرو۔ دل کی چوٹ تم ابھی نہیں سمجھ سکتے۔ میں اپنے نصیب کو رو رہی ہوں کاش! آج میں اپنے پاس کوئی نوجوان بیٹا پاتی تو میں اپنا نذرانہ شوق لئے رحمت عالمۖ کی بارگاہ میں حاضر ہوجاتی یہ کہتے ہوئے پھر آنکھوں کے چشمے ابلنے لگے بچے نے ماں کو چپ کراتے ہوئے کہا: اس میں رونے کی کیا بات ہے ماں؟ تمہاری گود تو خالی نہیں ہے۔ رحمت عالم کی بارگاہ میں سب اپنے نوجوان بیٹوں کو لے کر جائیں گے تم مجھی کو لے چلو۔ ماں نے چمکارتے ہوئے جواب دیا بیٹا! میدان کار زار میں بچوں کو نہیں لے کر جاتے۔ وہاں تو شمشیر کی نوک سے دشمنوں کی صفیں الٹنے کے لئے نوجونوں کے کس بل کی ضرورت پڑتی ہے۔ میرے لعل! وہ قتل وخون کی سرزمین ہے تم وہاں جاکر کیا کرو گے؟ بچے نے ضد کرتے ہوئے کہا: یہ ٹھیک ہے کہ اپنی کم سنی کے باعث ہم میدان کار زار میں جانے کے قابل نہیں ہیں لیکن بارگاہ رسالت میں حاضری کے لئے تو کسی عمر کی قید نہیں ہے۔ ہماری قربانی سرکار نے قبول فرمالی تو زہے نصب اور اگر بچہ سمجھ کر واپس کردیا تو کم ازکم اس کا غم نہیں رہے گا کہ اسلام کے لئے جان کی نذر پیش کرنے سے ہم محروم رہ گئے۔ ماں نے فرط محبت سے بچے کا منہ چوم لیا اور حیرت سے منہ تکنے لگی۔ سپیدہ سحر نمودار ہوچکا تھا نماز فجر کے بعد مسجد نبوی کے میدان میں مجاہدین کی قطاریں کھڑی ہوگئیں۔ جونوجوان محاذ جنگ پر جانے کے قابل تھے انہیں لے لیا گیا باقی واپس کردیئے گئے انتخاب کے کام سے فارغ ہو کر سرکار واپس تشریف لا رہے تھے کہ ایک پردہ نشین خاتون پر نظر پڑی جو6سال کا بچہ لئے کنارے پر کھڑی تھی۔ سرکار نے حضرت بلال سے فرمایا: اس خاتون سے جاکر دریافت کرو کہ کہ کیا کام ہے؟ حضرت بلال نے قریب ہو کر ادب سے پوچھا: کیا فرما دے کر حاضر ہوئی ہو؟ بھرائی ہو آواز میں خاتون نے جواب دیا:آپ کا اعلان سن کر رہا نہیں گیا چھ سال کا یہ یتیم بچہ جس کا باپ میدان بدر میں جام شہادت نوش کر چکا ہے کلُ میری متاع زندگی ہے جسے سرکار کے قدموں پر نثار کرنے کے لئے حاضر ہوئی ہوں۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے بچے کو گود میں اٹھا لیا اور سرکار علیہ السّلام کی بارگاہ میں سارا ماجرا سنا دیا سرکار نے بچے کو آغوش رحمت میں جگہ دی۔ سر پر ہاتھ پھیرا اور نہایت شفقت کے ساتھ ارشاد فرمایا بیٹے! تم ابھی کم سن ہو! ابھی تم اپنی ماں کی گود میں پلو بڑھو۔ جب جوان ہوجائوں گے تو میدان تمہیں خود بلا لے گا بچے نے اپنی متلائی ہوئی زبان سے کہا۔ حضور ! اس جنگ کرنے کے قابل تو نہیں لیکن میدان کا رزار گرم کرنے کے لئے مجھ سے تنکوں کا کام بھی نہیں لیا جاسکتا؟ جیسے بڑی آگ جلانے کیلئے چھوٹے تنکے استعمال ہوتے ہیں۔ نبی علیہ السّلام نے فرمایا: بلال! جاکر اس بچے کی ماں سے کہہ دو۔ اس ننھی جان کی قربانی قبول کرلی گئی ہے قیامت کے دن وہ نمازیان اسلام کی مائوں کی صفوں میں اٹھائی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭٭














