فوج کا سیاسی کردار اور عوام!!!

0
110
ماجد جرال
ماجد جرال

پاکستان میں فوج ایک منظم، مضبوط اور بااختیار ادارہ سمجھی جاتی ہے۔ اس کی قربانیاں اور خدمات ناقابلِ تردید ہیں، خاص طور پر جب بات ملک کے دفاع اور دہشتگردی کے خلاف جنگ کی ہو۔ تاہم، گزشتہ چند دہائیوں سے فوج کے سیاسی کردار میں اضافہ نہ صرف ملکی جمہوریت کے لیے سوالیہ نشان بن چکا ہے بلکہ اب عوامی ناپسندیدگی کا باعث بھی بن رہا ہے۔حالیہ برسوں میں فوج پر یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ نہ صرف سیاسی عمل میں مداخلت کرتی ہے بلکہ حکومتوں کے قیام و زوال میں بھی مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ 2018 کے انتخابات سے لے کر موجودہ سیاسی بحران تک، عوامی تاثر یہی ہے کہ سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی اور مخالفین کو دیوار سے لگانے کا عمل خالصتا سیاسی مداخلت ہے۔سوشل میڈیا اور عوامی جلسوں میں یہ بات کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ عوام فوج سے ناراض ہیں۔ “فوجی قیادت سیاست سے باہر رہے”، “ریاست کے اندر ریاست نہیں چلے گی” جیسے نعرے عوامی مزاج کی عکاسی کرتے ہیں۔ لاہور، اسلام آباد، پشاور اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں ہونے والے مظاہرے اس عوامی بے چینی کو واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں۔ایک طرف فوج یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ “غیرسیاسی” ہے، لیکن دوسری طرف عملی اقدامات اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔ اگر فوج واقعی غیرسیاسی ہو گئی ہے تو پھر مختلف سیاسی رہنماں کے خلاف مقدمات، میڈیا کی سنسرشپ، اور سیاسی جماعتوں کی تقسیم میں اس کا کردار کیوں محسوس کیا جا رہا ہے؟جمہوری معاشروں میں فوج کا کردار واضح ہوتا ہے: ملک کا دفاع، آئین کی پاسداری اور اندرونی و بیرونی خطرات سے حفاظت۔ جب فوج اپنے آئینی دائرہ کار سے باہر نکل کر سیاسی جماعتوں، عدالتوں یا میڈیا پر اثر انداز ہونے لگے تو نہ صرف ادارے کی ساکھ مجروح ہوتی ہے بلکہ ملکی سالمیت بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔آج کا نوجوان باشعور ہے، وہ سوال پوچھتا ہے، تجزیہ کرتا ہے اور سچائی کی تلاش میں ہے۔ سوشل میڈیا نے فوج کی اجارہ داری کو چیلنج کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی مرتبہ ملک کے نوجوان طبقے میں کھل کر یہ بحث ہو رہی ہے کہ ادارے کا سیاست میں کردار کیوں ہے؟ اور یہ سوالات صرف چند افراد تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک قومی مباحثے میں تبدیل ہو چکے ہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ فوج اپنی سمت درست کرے۔ اسے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور سیاست سے مکمل طور پر کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے۔ جمہوریت کے استحکام اور عوامی اعتماد کی بحالی اسی وقت ممکن ہے جب تمام ادارے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں۔اگر فوج واقعی ملک و قوم کی خیرخواہ ہے تو اسے اپنے وقار کی بحالی کے لیے سیاسی کردار کو ترک کرنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر، عوام کا اعتماد مزید متزلزل ہوگا، اور وہ دن دور نہیں جب عوامی دبا اتنا بڑھ جائے گا کہ ادارے کی خودمختاری بھی سوالات کی زد میں آ جائے گی۔پاکستان کو ایک مضبوط، جمہوری اور شفاف نظامِ حکومت کی ضرورت ہے اور اس کا آغاز فوج کے اپنے اصل کردار کی جانب واپسی سے ہو سکتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here