خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد!!!

0
42

ٹیگور کے امر سونار بنگلہ کیساتھ ہمارا رومانوی تعلق تو بہت پرانا ہے لیکن پچھلے برس کی سیاسی تبدیلی کے بعد اب ایک مرتبہ پھر ڈھاکہ کی گلیوں میں گھومنے پھرنے کو دل کر رہا ہے۔ کچھ اہم مصروفیات کی وجہ سے اس سال ابھی تک جانا تو نہیں ہوا لیکن نیو یارک کے ساکن، ہمارے قریبی دوست برادر ڈاکٹر عمران حسین، چند دن پہلے بنگلہ دیش میں ایک ماہ گزار کر واپس آئے تو ان سے ملنے ضرور پہنچ گئے۔ عمران بھائی کومیلا کے رہنے والے ہیں۔ بارہ سال بعد کے طویل وقفہ کے بعد انہیں اپنے ملک جانے کا موقع ملا۔ حال ہی میں انہوں نے ایک امریکی یونیورسٹی سے پولٹیکل سائینس میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ بنگلہ دیش کی سیاسی صورتحال پر ان کا تجزیہ بہت قیمتی ہوتا ہے۔ کل بھی وہ ہماری ملاقات کے دوران وہاں کے حالات ہمیں بتاتے رہے لیکن میں تو فیض احمد فیض کے ان اشعار میں ہی کھویا رہا۔
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
عمران بھائی بتا رہے تھے کہ ملک میں صرف حکمران جماعت بدلی ہے، اس کے پیچھے موجود سوچ اور اس کے اثرات بدستور موجود ہیں، خاص طور پر اربن مڈل کلاس اور میڈیا میں۔ اگرچہ آمرانہ حکومت کا خاتمہ ہوا ہے، لیکن سیاسی کلچر میں کوئی واضح تبدیلی نہیں آئی۔ بدعنوانی، پیسہ اور طاقت ہی ابھی تک سیاست کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ اخلاص، قربانی اور قابلیت رکھنے والے افراد کو سیاسی جماعتوں میں جگہ بنانا مشکل ہو گیا ہے۔ جب تک خود جماعتوں میں جمہوریت قائم نہیں ہوتی، اس وقت تک باصلاحیت افراد کے لیے سیاست میں داخل ہونا یا اس میں قائم رہنا ایک مشکل عمل ہے۔ آج کی اس نشست میں ڈاکٹر زاہد بخاری، برادر طارق الرحمان، امام عبدالجبار، برادر قمرالدین حسینی، برادر سعد صدیقی اور چند دیگر احباب بھی موجود رہے۔عمران بھائی روانی سے بتائے جارہے تھے کہ موجودہ عارضی حکومت اپنی ترجیحات طے کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اولین قدم ہونا چاہیے تھا سابق آمریت کے حامی افسران، خاص طور پر بیوروکریسی اور پولیس کو جوابدہ بناتے، جو ابھی تک نہیں کیا جا سکا۔ گزشتہ حکومت کے دور میں جنہیں بھرتی کیا گیا تھا، وہ اب بھی کلیدی عہدوں پر موجود ہیں۔ اِس کے برعکس، حکومت کو چاہیے تھا کہ ان نوجوانوں کو پولیس اور دیگر اداروں میں بھرتی کرتی جنہوں نے جمہوری جدوجہد میں حصہ لیا۔ ایسا نہ ہونے کے باعث امن و امان برقرار رکھنا حکومت کے لیے چیلنج بن چکا ہے۔ برادرِ محترم عمران حسین نے میڈیا کی زبوں حالی اور دارلحکومت ڈھاکہ کے دگرگوں حالات پر بھی بات کی۔ بدقسمتی سے یوں لگ رہا تھا کہ وہ پچھمی پاکستان کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں کیونکہ دونوں ملکوں میں پچاس پچپن سال کی علیحدگی کے بعد بھی کوئی زیادہ فرق نہیں پڑا۔ نصیر ترابی کے یہ اشعار بالکل صحیح لگے!
وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال
شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی
محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا
شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی

میں مجھے سونار بنگلہ جانے کا موقع ملا تھا۔ ڈھاکہ کے بازاروں کے علاوہ دیہاتی اور ساحلی علاقے بھی بالکل پاکستان کی سرزمین جیسے لگے تھے اور اس پاک سرزمین سے محبت میں اضافہ ہی ہوا تھا۔ دو ہفتے بعد، یعنی اگست سے اگست تک ہمارے بنگلہ دیشی ساتھیوں کے زیرِ انتظام MUNA Convention 2025 فلاڈیلفیا میں منعقد ہوگا۔ بہت سارے دوست و احباب سے وہاں ملاقاتیں ہونگی۔ اور یقینا فیض کے یہ اشعار بھی یاد آئیں گے۔
تھے بہت بے درد لمحے ختم درد عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
دل تو چاہا پر شکست دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد
ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here