اسرائیل کو لگام؟

0
152
جاوید رانا

شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنی نظم شکوہ میں اُمت کے حال زار پر شکوہ بہ لب کہا تھا!
” رحمتیں ہیں تیری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
اور جواب شکوہ میں اس کا سبب بھی بتا دیا تھا کہ!
‘تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
علامہ اقبال کے تقریباً ایک صدی قبل آشکار کردہ فلسفے پر اگر غور کریں تو موجودہ دور میں بھی اُمت مسلمہ اسی قحط الرجال کا شکار ہے۔ ہماری یہ تمہید اس صورتحال کے تناظر میں اسرائیل کے حالیہ جنگجو انہ اور امریکہ و مغربی دنیا کے منافقانہ عمل کے سبب حقیقت پر پوری اُترتی ہے۔ ایک جانب اسرائیل گزشتہ سات عشروں سے بھی زیادہ عرصے سے اپنے گریٹر اسرائیل کے ایجنڈے پر مسلم خصوصاً عرب دشمنی پر امریکی سرپرستی سے جارحیت پر تُلا ہوا ہے تو دوسری جانب مسلم (عرب) ممالک کے سربراہان اپنے عیش و عشرت اور اقتدار کے تسلسل کی خاطر امریکہ کے باجگزار بنے ہوئے ہیں، جن ممالک اور رہنمائوں نے امریکی حصار سے نکلنے یا آواز حق بلند کرنے کی کوشش کی انہیں تاراج کر دیا گیا ہے یا امریکی مفاد کے تابع کر دیا گیا ہے۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ سے ایران کیخلاف محاذ آرائی تک کی تاریخ اس حقیقت کی غماز ہے کہ صفحۂ ہستی سے اُمت مسلمہ کو نیست و نابود کر کے صیہونیت و رہبانیت کا ہی دور دورہ ہو، اس ایجنڈے میں ہندتوا کے کردار کو بھی منفی نہیں کیا جا سکتا۔
گزشتہ ہفتے قطر پر اسرائیل کے حملے کی تفصیلات کے بارے میں قارئین یقیناً پورے طور سے واقف ہیں کہ حماس سے مذاکرات کی آڑ میں کس طرح حملہ کیا گیا، کس طرح ری فیولنگ کی گئی اور خطے میں امریکی مفاد کیلئے سینٹ کام کے ہیڈ کوارٹر اور امریکہ کے سب سے بڑے حفاظتی مدافعاتی انتظامات و افواج کی موجودگی کے باوجود کسی کو کانوں کان حملے کی خبر نہ ہوئی حتیٰ کہ امریکی انتظامیہ بھی خطے میں اپنے اہم ترین نان نیٹو دوست ملک پر حملے سے بے خبر رہی۔ یہ سب انہونی تو قرار ہر گز نہیں دیا جا سکتا کہ اسی مرکز سے ہی امریکہ نے ایران پر دنیا کے سب سے بڑے طاقتور بموں سے حملہ کیا تھا۔ ہمارا یقین ہے کہ باہمی انڈر اسٹینڈنگ اور متعینہ منصوبے کے تحت کارروائی عمل میں لائی گئی، ہمارے اس یقین کو تقویت اس نکتہ سے بھی ملتی ہے کہ اقوام متحدہ میں منظور قرارداد مذمت میں اسرائیل کا کوئی ذکر نہیں۔ ہماری سوچ یہ بھی ہے کہ نیتن یاہو کے گریٹر اسرائیل ایجنڈے پر عمل درآمد کے اہداف میں امریکی اطاعت و مفادات کے تابع حکمران و ملک بھی شامل ہو چکے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ عرب و خلیجی ممالک تک اسرائیل محدود نہیں رہے گا، بلکہ وہ پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک تک بھی گریٹر اسرائیل ایجنڈے پر نظریں گاڑے ہوئے ہے۔ قطر پر حملے کے بعد امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ ماروکو روبیو کے اسرائیلی دورے پر دیوار گریۂ پر مسلم مخالف کلمات اور بار بیرین قرار دیکر انہیں ختم کرنے کا اعادہ نیتن یاہو کے ارادوں کو واضح کرتا ہے اور یوں مارکو روبیو کی تائید صہیونیت و رہبانیت کی مسلم دشمنی نہیں تو اور کیا ہے۔
صیہونیت کے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے اسرائیل و امریکہ نے مصر سے شام اور ایران تک اور سب سے بڑھ کر مظلوم فلسطینیوں کیساتھ جو قیامت برپا رکھی ہے، اس پر تو عرب و خلیجی ممالک اور حکمرانوں بلکہ عرب لیگ اور او آئی سی نے ماسوائے مذمت اور قراردادوں کے کچھ نہیں کر کے دیا البتہ اب جب اسلامی دنیا کے امیر ترین ملک، تمام تر وسائل کے حامل اور خطے میں امریکی مفادات کے کیئر ٹیکر ملک پر افتاد پڑی ہے تو گویا ساری اُمت مسلمہ کو اسرائیل کے مظالم، بربریت اور مسلم دشمنی کااحساس ہوا ہے، اور اسرائیل کیخلاف سخت اقدامات، مشترکہ فوج کے قیام، جوابی حملوں اور اُمہ کے تحفظ کا خیال آیا ہے، اسرائیلی جارحیت کیخلاف دوحا میں ہونیوالی کانفرنس میں 50 ممالک کے سربراہان و نمائندگان شریک ہوئے، اس کانفرنس میں نیتن یاہو کو انصاف کی عدالت میں لانے، اسلامی فوج بنا کر اسرائیل کو سبق سکھانے، اسرائیل پر سفری، تجارتی پابندیاں لگانے اور تسلیم کئے جانے والے اور ابراہام اکارڈ میں شامل ہونیوالے ممالک کی دستبرداری سمیت بہت سے فیصلے کئے گئے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ فیصلے قابل عمل ہو سکیں گے خصوصاً وہ ممالک جہاں بادشاہت یا ملوکیت ہے اور ان کے مفادات امریکہ و مغربی دنیا سے وابستگی کے حامل ہیں اور کیا امریکہ اپنے قریب ترین اور محبوب ملک کیخلاف کوئی اقدام ہونے دیگا۔ بادیٔ النظر میں تو ایسا کچھ نظر نہیں آتا بلکہ امریکہ خطے میں اپنے مفادات کے ناطے سب سے اہم مسلم ریاست قطر کو بہلا پھسلا کر پھر کسی اکارڈ پر لے آئے گا اور مظلوم فلسطینی یوں ہی مرتے اور اسرائیل کے مظالم سہتے رہیں گے۔ ویسے بھی جس ملک کے عوام حکمرانوں کیساتھ نہ ہوں وہاں مضبوطی اور جرأت کم ہی ہوتی ہے۔ ہمارے حساب سے تو قطر پر حملے کے بعد عرب، اسلامی کانفرنس نشستند گفتند برخاستند کے سواء کچھ نہیں تھی۔ اسرائیل کو نکیل ڈالنا تو دور کی بات، اس کے جنون پر کمی بھی نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here