ہم ایوارڈ یا کاروبار!!!

0
67
شمیم سیّد
شمیم سیّد

پچھلے چار مہینوں میں پورے امریکہ میں جہاں جہاں پروگرام ہو رہے ہیں چاہے وہ اپنا کنونشن ہو یا کوئی اور بڑا یا چھوٹا پروگرام ہو وہاں پر ہم ایوارڈ کا ایک بوتھ ضرور لگا ہوتا ہے جہاں پر ڈسکائونٹ ٹکٹ بک رہے ہوتے تھے اور پاکستان سے آئے ہوئے ایک صاحب جو خود کو ہم ٹی وی سے منسلک بتاتے تھے وہ دن رات محنت کر رہے تھے اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی محنت سے یہ پروگرام ایک تاریخی پروگرام تو ضرور بن گیا لیکن اس کے پیچھے بہت سی چیزیں چھوڑ گیا جو وہاں موجود لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئے گی آخر اس ایوارڈ کو امریکہ میں کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے، یہ ایوارڈ پاکستان میں بھی ہو سکتے ہیں اس ایوارڈ کی ابتداء پاکستان میں لکس ایوارڈ سے شروع ہوئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے تمام چینلز اس ایوارڈ کو کرنے لگے اور انڈیا کے مقابلے میں ہم اس قدر آگے بڑھ گئے کہ ہم اپنی اقدار کو بھی بھول گئے، ناچ گانا تو اپنی جگہ وہاں جو ہماری فنکارائیں جو لباس زیب تن کر کے آتی ہیں وہ کسی طرح بھی ایک مسلمان ملک کی عورتوں کو زیب نہیں دیتا۔ کیونکہ امریکہ میں اور خاص طور پر ہیوسٹن میں انہیں ایسے اسپانسرز مل جاتے ہیں جو منہ مانگی رقم دینے کو تیار ہوتے ہیں انہیں صرف اسٹیج پر بلا لیا جائے تاکہ پورے پاکستان میں ان کے چرچے ہوں پہلے بھی ہمارے ہیوسٹن کے بزنس مینوں نے بڑی بڑی رقمیں دی تھیں اس لیے اپنے لگائے ہوئے پیسوں سے وہ دس گنا زیادہ کماتے ہیں تھوڑی محنت کرنی پڑتی ہے پورے ہیوسٹن میں پہلے دو تین ہفتوں سے یہ خبر اُڑا دی گئی کہ ٹکٹ بک چکے ہیں اور کوئی ٹکٹ نہیں ہے اور آخر وقت تک لوگوں کو ٹکٹ بیچتے رہے لیکن جن لوگوں سے وعدے کیے گئے تھے جو اسپانسرز تھے ان کو بھی ٹکٹ فراہم نہیں کیے گئے وہ لوگ بھی شکایت کرتے ہوئے نظر آئے۔ اس وقت جو پاکستان کے حالات ہیں ہمارے فوجی مارے گئے افغانستان سے دہشتگردوں نے حملے کر کے ہمارے 30 جوان مار دیئے اور ہمارے پاکستانی ایمبیسڈر صاحب ہیوسٹن میں ایوارڈ شو کے مزے لے رہے تھے ان کو تو واشنگٹن ڈی سی میں ہونا چاہیے تھا ہمارے لوگ مارے جا رہے تھے اور ہم یہاں ہم ایوارڈ دیکھ رہے تھے اسی بات کے پیش نظر ہیوسٹن کے پرنٹ میڈیا نے اس پروگرام میں شرکت نہیں کی جبکہ پرنٹ میڈیا نے اپنے اخباروں میں اشتہارات بھی چلا ڈالے تھے ہمارے اداکار اور اداکارائیں یہاں آکر ایوارڈ کے علاوہ بھی اپنے اپنے کام تلاش کر لیتے ہیں ہوٹل میں لوگوں کا رش اور وہاں سے اطلاعات بھی ہیں کہ وہاں ہماری اداکارائیں کس حال میں دیکھی گئیں۔ ہال تو بھرنا ہی تھا ہمارے ملک کے بڑے بڑے ٹی وی اداکار وہاں موجود تھے جن کو دیکھنے کیلئے ہماری قوم ترستی رہتی ہے۔
یہ بھی خبریں ہیں کہ ٹکٹوں کو بلیک میں بیچا گیا، اس کے باوجود اندر اور باہر بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے، ایوارڈ دینے کا بھی کوئی معیار نہیں ہوتا ہے جس کی پہنچ زیادہ ہوتی ہے یا جو قریب ہوتا ہے یا جس کی سفارش بڑی ہوتی ہے اس کو ایوارڈ مل جاتے ہیں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس ایوارڈ کی آڑ میں کتنے لوگوں کے ویزے لگوائے جاتے ہیں جس سے ایکسٹرا آمدنی ہوتی ہے ہمارے اسپانسرز کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ ایسے کاموں میں اپنا پیسہ خرچ کریں جو ہمارے ملک میں جو غریب لوگ اور ایسی این جی اوز کام کر رہی ہیں جیسے انڈس ہسپتال، شوکت خانم، ایس آئی یو ٹی جیسے اداروں کو دیں جو دنیا اور آخرت میں بھی ان کیلئے رحمتیں لائے۔ ہماری حکومت کو بھی چاہیے کہ ایسے لوگوں کا آڈٹ کیا جائے کہ وہ کس طرح پیسہ کما رہے ہیں اس پر ٹیکس بھی لگایا جائے اور میئر آف ہیوسٹن کو بلا کر اپنے نمبر بڑھانے سے کام نہیں چلے گا۔ آئندہ سے ایسے پروگراموں پر کڑی نظر رکھنی چاہیے۔ سلطانہ آپا کو تو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ آپ کے نمائندے یہاں لوگوں کیساتھ کیسے کیسے وعدے کیے اور آخر میں جھنڈی دکھا دی۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here