اسلام آباد:
وزیراعظم عمران خان دورہ امریکہ سے گزشتہ رات وطن واپس پہنچ گئے ،اس دورہ میں مسئلہ کشمیرکوبھرپورطریقے سے اٹھانے پر ان کا زیردست استقبال کیا گیا۔
اس دورے کی دوسری اہم بات مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی ختم کرانے کی کوشش تھی جس کیلیے ان کے بقول امریکی صدر ٹرمپ نے ثالثی کی ذمے داری سونپی ہے لیکن سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کا اس میں ان کی کامیابی کے امکانات بہت محدود ہیں۔
نیویارک جاتے ہوئے انہوں نے سعودی عرب کا دورہ کیالیکن سعودی عرب کی تیل تنصیبات پرڈرون حملوں کے بعد اسے ایران کے ساتھ مفاہمت پر قائل کرنا خاصا مشکل ہے ۔نیویارک میں قیام کے دوران وزیراعظم عمران خان نے ایران کے صدر حسن روحانی سے ملاقات کی ۔وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی ایرانی ہم منصب سے تقریباً تین ملاقاتیں کیں۔
ایران سعودی تیل تنصیبات پرحملوں سے انکار کرتا ہے،یمن کے حوثی باغی اس کارروائی کی ذمے داری قبول کرتے ہیں۔سعودی عرب اورامریکا ایران کو ذمہ دار قراردیتے ہیں۔لہذا پاکستانی قیادت کے ایرانی لیڈروں سے مذاکرات کے کوئی خاطرخواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔
ماضی میں ضیاء الحق نے بھی عراق ایران جنگ رکوانے کی کوششیں کی تھیں لیکن اس میں انہیں کامیابی نہیں ملی تھی۔اسی طرح نوازشریف بھی سعودی عرب اورایران میں یمن کے معاملے پرمفاہمت کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔وزارت خارجہ کے ایک ذمہ دار افسرنے بتایا کہ چاہے وزیراعظم عمران خان کی مفاہمتی کوششیں کامیاب نہ ہوں لیکن پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی آپشن نہیں کہ دونوں ملکوں میں کشیدگی ختم کرائے ۔لہذا پاکستان اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔