اسلام آباد:
سرکاری شعبے میں چلنے والے اداروں کی نج کاری کے حوالے سے کابینہ ارکان میں اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔
بدانتظامی اور نا اہلی کی وجہ سے ان سرکاری اداروں کا مجموعی سالانہ خسارہ اس وقت 300 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔وفاقی کابینہ کے حالیہ ایک اجلاس میں کچھ وزرا نے منافع بخش سرکاری اداروں کی نج کاری منصوبے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا جبکہ کچھ کا موقف تھا کہ یہ تجارتی اداروں کو چلانا حکومت کا کام نہیں ہے۔ ان وزرا نے اس بات پر بھی تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا کہ غیر فعال سرکاری اداروں کو نج کاری کی مجورہ فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔
تاہم کابینہ نے ایک بات پر اتفاق کیا کہ کسی بھی سرکاری اسپتال کی نج کاری نہیں کی جائے گی بلکہ حکومت کا منصوبہ ہے کہ ان اسپتالوں کو زیادہ خودمختار اور باختیار بنایا جائے تاکہ وہ اپنی خدمات کا معیار بہتر بناسکیں۔
ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ نج کاری کی کابینہ کمیٹی نے کچھ سرکاری اداروں کی نج کاری کی منظوری دی ہے اور اسے حتمی منظوری کے لیے کابینہ میں پیش کیا گیا ہے،وفااقی کابینہ کو بھیجی گئی تجاویز میں ٹیلی فون انڈسٹریز آف پاکستان کو نج کاری پروگرام سے نکالنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔