ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی
آج کل جاہل کو عالم، بدمعاش کو شریف، بدعنوان کو امین، کاذب کو صادق، برے کو اچھا، بد صورت کو خوبصورت، غلام کو آقا، غیر سید کو سید، کم ذات کو خوش ذات، بدالحان کو خوش الحان، بدبودار کو خوشبو دار، وعدہ خلاف کو وعدہ وفا، غدار کو وفادار، دغاباز کو دعا گو، مجرم کو مدعی، فقیر کو امیر، بے عزت کو معزز اور ہر جائی کو ہردلعزیز کہنے کی جو رسم چل نکلی ہے۔ اس سے معاشرہ تباہ و برباد ہو کر رہ گیاہے۔ اگرچہ یہ رسم انبیاءکے ادوار سے چل رہی ہے۔ انبیائؑ کے دور میں ایسی حرکتیں ہوتی رہیں۔ ہمارے نبی پاکﷺ کے دور میں بھی منافقوں کی کمی نہ تھی۔ دور حاضر تو نفاق کا تاریک ترین دور ہے۔ ہر ایک فیلڈ میں جعلی شخصیتوں کو پروموٹ کیا جا رہا ہے۔ سیاست کے میدان میں دیکھیں تو سینٹ، اسمبلی، بلدیہ ہالز وغیرہ میں اکا دکا کے سوا مکار اور لٹیرے بھرے پڑے ہیں۔ راہزن رہبر بن گئے، چور کوتوال بن گئے ہیں۔ ڈاکو جج بن گئے ہیں، راشی قاضی بن گئے، چرواہے وزیر بن گئے، اناڑی استاد بن گئے ہیں۔ نقال اصیل بن گئے، بہروپیے ارباب اقتدار بن گئے۔ پھیری والے دن پھیرنے والے بن گئے۔ ڈسپنسر ڈاکٹر بن گئے ہیں، جنہوں نے قرآن پڑھا نہیں وہ قرآن کے قاری بن گئے۔ جنہیں آئیتیں یاد نہیں وہ حافظ قرآن کہلانے لگے۔ جو شاگرد بننے کے قابل نہیں وہ پروفیسر بنا دیئے گئے۔ جومریض دہر تھے وہ حاذق دوراں بنا دیئے گئے۔ جنہیں اسلام کے حروف تک نہیں آتے وہ علامہ بنے پھرتے ہیں، ایسے لوگوں کو حجة الاسلام لکھ دیا جاتا ہے جو اسلام کو حجتیں کرتے پھرتے ہیں۔ اب آیة اللہ، مفتی، قاضی، استاد، پروفیسر، ڈاکٹر، آقا، آغا، سردار، نوابزادہ، مخدوم، پیر و مرشد لکھنا ہو تو نہ کوئی تعلیم چاہیے نہ ہی عمل، نہ سند کی ضرورت ہے، نہ سرٹیفیکیٹ کی، نہ تصدیق کی ضرورت ہے نہ تائید کی۔ میں جب طالب علم تھا تو ایک ڈرامہ لگتا تھا سلطان شعبان اس میں ایک بادشاہ کے دارالحکومت پر دشمن حملہ کرتا ہے۔ تو اس کے کارندے اس کا ہم شکل گڈریا ڈھونڈتے ہیں۔ وہ تخت پر تاج پہنے بیٹھ جاتا ہے اور بادشاہ حلیہ بدل کر گڈریا بن جاتا ہے۔ گڈریے سے کہا جاتا ہے کہ وہ تخت پر بیٹھے مگر بولے نہیں۔ اس کو انعام و اکرام سے نوازا جائےگا۔ جب فوجیںچڑھائی کرتی ہیں اور گڈریے کو جان کے لالے پڑجاتے ہیں تو وہ چیختا ہے کہ میری بھیڑیں اوربکریاں واپس کر دو۔ میں تخت و تاج دیتا ہوں۔ اس طرح اس کی جان بچ جاتی ہے اور حملہ آور ملک پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ آج بہت سارے سیاسی تختوں اور مذہبی منبروں پر اکثر گڈرئیے بیٹھے ہیں جبکہ بادشاہ گڈریوں کے حلیے میں اپنی جانیںبچانے پر مجبور ہیں۔ جب دشمن حملہ آور ہوگا تو اقتداور قوم پر قابض ہو کر گڈریوں کو بھی نشانہ بنائے گا اور بادشاہ بھی دھر لئے جائینگے، شاہ کی ترکیب اچھی تھی مگر اس نے انجام کی ترکیب نہیں سوچی، وقتی ترکیب دائمی پچھتاوے کا سبب ہوتی ہے۔ آج سیاست، سماج، مذہب،(جاری ہے)
قومیات، خاندان، معاش، سامراج اور معاشرہ پر ایسے ہی عفریت چھائی ہے جو گڈریوں کو بادشاہ اور بادشاہ کو گڈریا بنانے پر تُلے ہیں۔ انجام کیا ہوگا؟ ایسے لوگوں سے سمجھے جو نا اہل کو اہل اور اہل کو نا اہل بناتے ہیں کہیں رشتہ داریاں پل رہی ہیں تو کہیں دوستیاں، کہیں علاقائی تعصب چل رہے ہیں تو کہیں حسد و نخوت کا راج، کہیں ملکی تعصبات ہیں تو کہیں لسانی گروہ بندیاں، کہیں فرقہ پرستی ہے تو کہیں انا پرستی، کہیں شہری فوقیت ہے تو کہیں دیہاتی شہنشائیت، غرض کن کن مصیبتوں سے انسانیت کو برباد کیا جا رہا ہے، کاغذی پھول حقیقی پھولوں کی جگہ آگئے ہیں۔ کاٹھ کی ہنڈیائیں روزانہ چڑھ رہی ہیں۔بکرے کی مائیں روزانہ خیر منا کر طفل تسلیاں دے رہی ہیں۔
مجھے یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ اصل میراث ہی نہ لُٹ جائے۔ اصل بساط ہی نہ اُلٹ دی جائے، مجھے بادشاہتوں سے خیر خواہی ہی نہیں مجھے اس مسند سے خیر خواہی ہے جس کے الٹنے پلٹنے سے عوام ختم ہو جائے، مجھے کائنات کے بادشاہ آقا رسول کی امت سے خیر خواہی ہے، مجھے اپنے ملک وطن کی عوام سے خیر خواہی ہے، مجھے ان گڈریوں سے بھی خیر خواہی ہے، جو بیچارے اسیر تھے۔
قارئین! میری تحریر ہذا سے نہ کوئی اثر پڑے گا نہ انقلاب آئے گا نہ تبدیلی آئے گی۔ تاہم کلمہ¿ حق تو پہنچے گا۔ اپنا فریضہ ادا ہو جائے گا، اپنا ضمیر مطمئن ہوگا۔ اس نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟ اس دلدل میں کون پھنستا ہے؟ اس سولی پر کون چڑھتا ہے؟ اس آتشکدہ میں خون بے خطر کودتا ہے؟ مگر مردانِ حق کو کلمہ¿ حق توکہنا ہے۔ 2019ءمیری زندگی کا بدترین سال تھاجس میں میری قوم کے چند بہکے ہوئے متعصب افراد نے ہزار ہا مرتبہ ناموس کی گالیاں لکھیں ہیں جب تک زندہ ہوں کلمہ¿ حق لکھنے سے باز نہیں آﺅں گا، 2020ءمیں بھی توحید کے پرچار، عشق رسالت کی ترویج، وکالت اہل بیت، خدمت ولایت علی اور خدمت ذکر حسینؑ کے عوض گالیاں کھانے کیلئے بھی تیار ہوں۔ گالیاں اور گولیاں، شکائیتیں اور حکائیتیں، نفرتیں اور کدورتیں، دھمکیاں اور کج فکریاں ایسے طالب علموں کا راستہ کیسے روک سکتی ہیں؟ جن کے بدن کا ہر قطرہ خون امام زمانہؑ کے پیسے کا بنا ہواگر شیطان کے نمائندے میدان نہیں چھوڑ رہے تو رحمن کے نمائندے کیسے میدان چھوڑ دیں؟
یا اللہ تو ہمارے معاشرے سے جہالت پسندی، اقرباءپروری، بے جا دولت نوازی، جعلسازی، مکاری، جھوٹ، فریب، دھوکہ اور چکر بازی کو ختم فرما اور ہر ایک کو میرٹ پر فیصلہ کرنے کی توفیق عطاءفرما۔ آمین۔ ابن دعا ازمن واز جملہ جہاں آمین باد
٭٭٭