سردار محمد نصراللہ
قارئین وطن! صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے، زندگی یوں ہی تمام ہوتی ہے کے مصداق جب بھی آپ ٹی وی آن کریں بیچارے عمران خان کی حکومت بحرانوں میں گھری ملتی ہے، کبھی اپنوں کے ہاتھوں اور کبھی بیرونی ہاتھوں کی مداخلت اور ایسے لگتا ہے عمران خان کا ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ﺅں رکاب پر ، پھر مغل بادشاہ بابر کو ہاتھی کی سواری کا کہا گیا اور اس نے اوپر درج جملہ کہہ کر انکار کر دیا، کہ جس سواری پر اس کا کنٹرول نہیں ہے وہ استعمال نہیں کرتا، عمران خان کو بھی چاہئے کہ جب حکومتی امور اس کے ہاتھوں میں نہیں ہیں تو اس کو اسمبلی توڑ دینی چاہیے اور نئے انتخابات کی جانب اپنے قدم بڑھانے چاہئیں، بجائے آئے دن بحرانوں میں اُلجھ کر اپنی ساکھ کو نقصان پہنچاتا رہے، روٹی غریب سے لے کر امیر تک سب کی ضرورت ہے لیکن افسوس بازار میں آٹا دستیاب نہیں ہے اور اگر مل رہا ہے کہیں تو بلیک میں اور غریب کی دسترس سے بہت دور ہے بجلی، گیس، پیٹرول جیسی ضروری مصنوعات اتنی مہنگی ہو چکی ہے کہ اس کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیاءبھی عوام سے دور دور بھاگ رہی ہیں، غرض یہ کہ عمران خان ہر نئے دن بے اختیار سے نظر آتے ہیں اور ان کی اپنی کابینہ کے لوگ دبے لفظوں عمران خان کی ناکامیوں کا اعتراف کر رہے ہیں۔
قارئین وطن! راقم یہ سمجھتا ہے کہ عمران خان کے خلاف باقاعدہ ایک پلان کے تحت ہر دن سازش ہو رہی ہے اور اس کو مکمل طور پر ناکام شو کیا جا رہا ہے اور ماضی کے حکمرانوں جن کی وجہ سے ملک معاشی طور پر تباہ و برباد ہو رہا ہے وہ اچھے لگنے شروع ہو گئے ہیں۔ جب میں عمران خان کا یہ حال دیکھتا ہوں تو لاہور کے ایک بدمعاش کا واقعہ یاد آجاتا ہے جس کا نام اچھا شوکر والا تھا، اس نے ایک پنجابی فلم امام دین بنائی اور جب نمائش کیلئے پیش کی گئی تو اس وقت لاہور پولیس کے ایک ایس پی چیمہ ہوا کرتا تھا جس نے اچھے کو کہا کہ میں تمہاری فلم کو پہلے دن ہی فیل کروا دوں گا اور یہی ہوا کہ چیمہ نے تماشائیوں کو ڈنڈے مار مار کر پہلے شو سے بھگا دیا اور یوں اچھے کی فلم فیل ہو گئی اور ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کی حکومت کو آج کا کوئی ایس پی چیمہ ڈنڈے مار مار کر فیل کر رہا ہے عمران خان کیلئے ضروری ہے کہ اپنی ضد کے کنوئیں سے باہر نکلے اور حکومت کی بھاگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لے اور رکابوں پر اپنا کنٹرول مضبوط کرے اور اپنے لوگوں پر انحصار کرے نہ کہ ان قوتوں کی جانب سے بھیجے ہوئے ایس پی صاحبان جو ان کو ناکام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں سے جان چھڑائیں، اگر وہ واقعی قوم کو لیڈ کرنا چاہتے ہیں ورنہ چُپ چاپ گھر چلے جائیں۔ ان کو بھی معلوم ہے کہ ابھی تک احتساب کا عمل فیل ہو چکا ہے کہ ہر بڑا چور یا تو ملک سے باہر ہے یا موج اُڑا رہا ہے۔
قارئین وطن! ملک میں احتساب کا چرچا تو بہت ہے لیکن عمل وہ نہیں ہے جو امریکہ کی ریاست میں نظر آرہا ہے جس کو ہم (Impeachment) مواخذہ یا احتساب کہتے ہیں۔آج صدرٹرمپ جو ایک پاور فُل حکومت کا صدر ہے احتساب کا سامنا کر رہا ہے اور اس پر جرم یہ ہے کہ اس نے یوکرائن حکومت پر زور ڈالا کہ آئندہ الیکشن میں ڈیمو کریٹ امیدوار کےخلاف کوئی کرپشن کا اسکینڈل بنایا جائے اور دوسرا اس نے اپنے خلاف ہونےوالی انکوائری میں مداخلت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے برعکس پاکستان میں احتساب کا عمل اتنا بھونڈا ہے کہ حکومتی وسائل کو لوٹنے والے دونوں خاندان نوازشریف اور آصف زرداری تمام تر لُوٹ مار کے ملک کی سیاست کے سُرخیل بنے بیٹھے ہیں اور مفید اسٹائل میں حکومت کو فیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنی اولادوں کو سیاست میں اعلیٰ مقام میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں اور کُھل کھلا کر احتساب کا مذاق اُڑا رہے ہیں امریکہ میں اتنا تو ہوا کہ آج تک تین نامور صدور کو کٹہرے میںلایا گیا اور ڈونلڈ ٹرمپ چوتھے صدر ہونگے جبکہ پاکستان میں یوسف رضا گیلانی اور نوازشریف لیکن آج بھی وہ ہماری سیاست میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں کیا یہ ہمارے لئے لعنت نہیں ہے کہ اسلام جس کے دین کی پہچان ہی احتساب ہے اور پیغمبرﷺ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا لیکن ہم اتنی بڑی مثال ہونے کے باوجود عمل کرنے سے قاصر ہیں۔