آہ! سلیم ملک جانا تھا ہم سے دُور، بہانے بنا لئے، اب ہم سے کتنی دور ٹھکانے بنا لئے! مجھے تو کسی طور پر یقین ہی نہیں ہو رہا کہ واقعی ملک صاحب ہم سب کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ ابھی تو کل کی بات ہے جب پہلی مرتبہ رئیس شہر قمر بشیر کے دولت خانے پر ہنستے مسکراتے نوجوان سے ملاقات ہوئی، چند منٹ گزرے تھے کہ ایسا لگا کہ برسوں کی سلام دعا ہے۔ سلیم ایسا دل میں اُترا کہ بس اُترتا گیا، رئیس شہر کے گھر اس دن کوئی سیاسی پارٹی تھی۔ ہم سب کی توجہ کا مرکز وہی تھا۔ جیسے ہی قمر صاحب نے میرا تعارف کرایا سلیم ملک نے ایک ہی سانس میں میری سیاسی زندگی کا باب مکمل کر دیا اور آج وہ مسکراتا، کبھی شور ڈالتا کبھی کمیونٹی کیلئے لڑنے والا منوں مٹی تلے سویا ہوا ہے اور میں اپنی ناتوانی پر رو رہا کہ اتنی طاقت بھی نہیں کہ!
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہاے گراں مایہ کیا کیے
قارئین وطن! آپ کو سلیم ملک مرحوم یقین جانئے مرحوم لکھتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں کہ اس کے اندر کتنی خوبیاں تھیں اور وہ ہمدردی کا ایک پیکر تھا، میں ایک کاروباری تکلیف میں قانون کے ہتھے چڑھ گیا، مجھے کوئی تقریباً بارہ بجے رات کو فون آتا ہے سلیم ملک کا فون تھا چار یا چھ لفظوں پر محیط وہ کال تھی کہنے لگے سردار صاحب اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھنا اور بالکل پریشان نہ ہونا بس آپ کے ساتھ ہوں اور اس نے فون بند کر دیا۔ اس کے بعد میری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے کہ جس کو میں لڑاکا اور شور ڈالنے والا سمجھتاتھا اس کے اندر ایک فرشتہ بسا ہوا ہے حالانکہ ملک صاحب کےساتھ روزانہ کی ملاقات تھی نہ فون لیکن جب بھی کچھ دن گزرنے کے بعد فون پر بات ہوتی تو بہتر سنگ دل میں بسنے والوں کے گلے شکوے ہوتے ملک ایک بھرپور پولیٹیکل ورکر، سنجیدہ کالم نگار، ٹی وی اینکر اور پروگرامرہے، اسٹیج پر سے کبھی کسی کی توہین کی ہو۔ سکھوں کا پروگرام ہو یا ڈانس گانے کا بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے، پروگراموں میں پیچھے پیچھے رہتا توسلیم ملک مجھے کھینچ کر آگے لاتے۔
کچھ سال سے جب پی ٹی آئی کا شور و غوغا تھا سلیم ملک نے نہ وقت کی پرواہ کی نہ اپنے بیوی بچوں کی، دن رات عمران خان کی پارٹی کا حصہ بن کر امجد نواز، آصف چودھری اور کئی ساتھیوں کےساتھ مل کر کام کرنا شروع کر دیا لیکن وہ ہماری بدتمیز سیاست کے ہتھے چڑھ گیا اور کونی مارنے والوں کا نشانہ بن گیا۔ وہ اپنی خودی کے ہاتھوں زخمی ہوتا گیا اور شاہ کے سامنے جھکنے والے بلند پروازی کا ڈنکا بجاتے رہے لیکن اس نے کبھی پرواہ نہیں کی ،ان چور دروازوں سے داخل ہونے والوں کی۔قارئین وطن! ہندتوا مودی کی بربریت کےخلاف 27 ستمبر کو ہونے والی یکجہتی کشمیر کیلئے جس طرح کام کیا ،اس کا مقام پاکستان بنانے والے پولیٹکل ورکروں میں آتاہے ،اس کا اسٹیج پر چند نئے دولتیئے تھے جن کا قبضہ تھا وہ سب لوگ اس کے سامنے بونے لگ رہے تھے۔ جب اس نے دیکھا کہ مجھے یہ دولتئیے اسٹیج پر آنے نہیں دے رہے تو اس نے وہاں سے چیخ کر کہا کہ سردار صاحب کو اندر آنے دو وہیں پر اسٹیٹن آئی لینڈ کا رہائشی اجمل والنٹیئر کا کارڈ بانٹ رہا تھا مجھے بڑی اچھی طرح جانتا تھا۔
میں نے کہا کہ برادر اجمل ایک کارڈ مجھ کو بھی عنایت فرما دیں اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ان لوگوں کیلئے ہیں جنہوں نے پیسے دیئے ہوئے ہیں ،میں اس کے اس جواب پر حیران تو ہوا اور اسی سوچ میں پڑھ گیا کہ اللہ کی شان آج یہ پیسے والے بن گئے ہیں۔ میری مرحوم سے آخری گفتگو یا تبادلہ خیال 5 یا 6 اکتوبر کو بھیجے ہوئے ایک کلپ کے حوالے سے ہوئی جس میں انہوں نے پختون خواہ سے تعلق رکھنے والے کسی رہنما کی تقریر بھیجی جس میں وہ اجمل کے حوالے سے بات کر رہے تھے کہ ہم نے دو ہزار ڈالرز بھی دیئے اور ہمیں دھکے ملے۔ میں نے سلیم ملک کو لکھا کہ اس منافق کو سر پر چڑھانے والے آپ خود ہیں، انہوں نے جواب دیا یہ الزام رئیس شہر کو دیں جنہوں نے اجمل اینڈ گینگ کو کمیونٹی میں بے نقاب نہیں کیا کہ ان کے اصل چہرے کتنے ہیں ،بقول میرے پبلشر مجیب لودھی کے یہ سب قاتل ہیں ،ہمارے اس دوست کے اس مافیا نے ہمارے چھوٹے بھائی کی آوازکو منوں مٹی تلے دبا دیا ہے میرے یار !
تھی تیری تباہی میں درختوں کی بھی سازش
ورنہ یہ اُجڑ جانے کا موسم تو نہیں تھا
میرے اللہ اس کے درجات بلند فرما ،اس کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا اور اس کے اہل خانہ اور تمام دوستوں اور غم خواروں کو اس صدمہ کو برداشت کرنے کی ہمت عطاءفرما۔ آمین۔
٭٭٭