مفتی عبدالرحمن قمر،نیویارک
آج کل جس غیر یقینی صورتحال سے ہم گزر رہے ہیں، کوئی بھی ذی روح اس سے ناواقف نہیں، خوف، بے قابو معیشت، گھروں کے چولہے تک خاموش ہوتے جا رہے ہیں، محبتیں رخصت ہو رہی ہیں، لوگ ہاتھ ملانے سے گریز کرتے ہیں، بےروزگاری بڑھ رہی ہے، دیہاڑی دار کو وائرس نے کیا مارنا ہے وہ تو فاقوں سے تنگ آکر خود کشی کا سوچ رہا ہے، ہمارے یہاں امریکہ میں بعض جگہ کرفیو لگا دیا گیا ہے، دس سے زیادہ بندوں کے اجتماع پر پابندی لگ چکی ہے تو پھر کوئی تو حل ہوگا جی بالکل ہے، ہمیں اپنا لائف اسٹائل بدلنا ہوگا چونکہ ہم مسلمان آہستہ آہستہ اپنی بنیادیں ضائع کرتے جا رہے ہیں، آج کل ہمارے امام مسجد جب مسجد سے باہر نکلتے ہیں تو شکل و صورت ایسی بنا کر ایسے نکلتے ہیں جیسے ہمارا دین سے کوئی تعلق ہی نہیں، امام کا تعارف تو بڑی دور کی بات ہے۔ عام آدمی کا کیا حال ہوگا، پہلا حل تو یہ ہے کہ اللہ و رسولﷺ کی مکمل اطاعت کی جائے جو حلال ہے اسے حلال سمجھا جائے اور جو حرام ہے اس کو حرام مان لیا جائے اور اپنا مکمل بھروسہ اپنے مالک پر کیا جائے، جس نے اللہ پر بھروسہ کیا اللہ اس کیلئے کافی ہو گیا۔ دوسرا یہ کہ گناہوں سے بچا جائے، پاکیزگی کا خاص خیال رکھا جائے۔ پیپر کےساتھ ساتھ بچوں کو لوٹے کی افادیت بھی سمجھائی جائے اور خود بھی لوٹا شروع کر دو، پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے ،یہ میں اپنی یعنی مسلمانوں کی بات کر رہا ہوں، پاکیزگی ہوگی تو نماز ادا کرنے میں لذت آئیگی۔ جو آدمی پانچ وقت وضو کرتا ہے اس کے وجود پر گناہ نہیں رہتا، وائرس کہاں رہے گا، تیسرا یہ ہے کہ مصیبت پر گلا نہ کرو۔ ہمت سے کام لو۔ حوصلہ نہ ہارو۔ حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کرو۔ کوئی پریشانی آئے تو اپنے آپ کو قابو میں رکھو۔ ہمارے مصائب اور مشکلات اس وقت قابو میں آئیں گے جب ہم اپنے پروردگار کو راضی کرینگے ۔سیدنا ابراہیمؑ نے اپنے رب کو راضی کیا، غیروں نے اٹھا کر آگ میں ڈال دیا، اللہ نے اس آگ کو پھولوں میں تبدیل کر دیا۔ مچھلی نے سیدنا یونسؑ کو نگل لیا مگر کھا نہ سکی اس کو زندہ سلامت واپس کرنا پڑا، کہتے ہیں آیت کریمہ کا کمال تھا۔ اس لئے میرے عزیز بچو،ساتھیو، اب بھی وقت ہے اپنے رب کو راضی کر لیا جائے تو کرونا بھاگ جائےگا۔
٭٭٭