پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com
ویسے تو دیکھا جائے کرونا وائرس ایک الٰہی عذاب ہے، انسانوں نے جو خدائی مخلوق کےساتھ ظالمانہ ر وش رکھی ہے یہ بیماری اس کی سزا ہے۔ مغرب کی مہذب دنیا نے جو پریشان حال پناہ گزینوں پر اپنے دروازے بند کئے، بچے اور بوڑھے سردی سے ٹھٹھر کے مرتے رہے لیکن ظالموں کو رحم نہیں آیا۔ مسلمان بادشاہوں اور آمروں نے اپنی رعایا پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ ڈالے، چینیوں نے زندہ چمگادڑ چبا کے کھا لئے، مینڈک اور سانپ تک کو نہیں چھوڑا، غرض یہ کہ انسان جو اشرف المخلوقات کہلانے پر اِتراتا رہا ہے وہ درندگی کی تمام حدیں پھلانگ چکا ہے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا کی تمام شیطانی قوتوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ عالمی آبادی کو چھ ارب سے گھٹا کر ایک ارب پر لایا جائے اس لئے ایسا وائرس ایجاد کیا گیاہے جس سے کروڑوں کی تعداد میں ہلاکتیں ہونگی اور عالمی آبادی کافی حد تک کم ہو جائےگی، بہر حال بُرے وقت میں اس قسم کی سازشیں نہ بھی ہوں تو بنا دی جاتی ہیں۔
کرونا وائرس تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے، بظاہر تو ہے ایک جسمانی بیماری ہے لیکن اس کےساتھ وائرس کئی اور مرض معاشرے میں پیدا کرتا جا رہا ہے، روز مرہ کا معمول بُری طرح متاثر ہو رہا ہے، اسکول کالج اور یونیورسٹیاں بند ہو رہی ہیں۔
بچوں کے گھروں پر ہی رہنے سے والدین کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں، لوگ خصوصاً جو ماں باپ دونوں ہی ملازمت پیشہ ہیں ان میں سے کسی ایک کو گھر پر رہنا پڑر ہا ہے تاکہ بچوں کی نگہداشت ممکن ہو سکے، ریسٹورنٹس، بار، جم خانے، (ورزش کی جگہیں)، جواءخانے اور سینما گھر اور اسٹیج وغیرہ بھی بند ہو گئے۔ یورپ سے آنے والی فلائٹس پر پابندی لگا دی گئی، اس کا مطلب ہے کہ سیاحت کا کاروبار بھی متاثر ہوگا۔ ہوٹل اور کھانے پینے کی جگہیں بند ہونے سے بیروزگاری بڑھ جائے گی۔ چھوٹے تاجران شدید متاثر ہونگے۔ دنیابھر میں اسٹاک ایکسچینج کریش کر گئی ہیں، شرح سود صفر کر دیا گیا ہے۔ غریب اور اوسط درجے کا آدمی معاشی بدحالی کا سامنا کرنے جا رہا ہے۔ معاشی حالات میں بہتری کی صورتحال دُور دُور تک نظر نہیں آرہی۔ آج تو صدر ٹرمپ نے بھی کہہ دیا ہے کہ کم از کم جولائی اگست تک تو یہی صورتحال رہے گی لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے سارا سال ایسے ہی رہے، سماجی فاصلے زیادہ میل جول کو بیماری کے پھیلاﺅ کا ذریعہ قرار دیا جا رہا ہے، گلے ملنے کی ممانعت تو ہے ہی لیکن ہاتھ ملانابھی مضر صحت قرار دےدیا گیا ہے۔ دس سے زیادہ لوگوں کے مجمعے کو غیر قانونی قرار دےدیا گیا ہے۔ یعنی دوستوں، یاروں کے اکٹھے ہونے کو بھی خطرناک کہا جا رہا ہے۔
پہلے سے امراض میں مبتلا اور 50 سال سے زیادہ لوگوں کو کرونا وائرس سے متاثر ہونےوالے ہائی رسک لوگ ظاہر کئے گئے ہیں۔ امراض دل، ڈائبیٹیز، کینسر اور دوسرے امراض میں مبتلا لوگوں کو کرونا وائرس لگنے کی صورت میں جلد ہلاکتوں کا امکان ظاہر کیا گیا ہے،ا نسانوں کے آپس میں روابط خصوصاً براہ راست کم ہو جائینگے۔ تنہائی کا احساس بڑھ جائےگا جو نہ صرف ایک سماجی اور آگے چل کر ایک نفسیاتی مسئلہ بن سکتا ہے۔
ایسے حالات میں جرائم میں اضافہ ہونا بھی خارج از امکان نہیں ہے۔ جب بیروزگاری اور تنگدستی بڑھے گی تو لوٹ مار اور قتل جیسے واقعات میں اضافہ ہو، تنگ آمد بہ جنگ آمد، کی مصداق معاشرے میں بیزاری اور جھنجھلاہٹ میں اضافہ ہوگا۔ نفسیاتی امراض میں اضافہ ہوگا۔ معاشی طور پر حالات آگے چل کر سنبھل سکتے ہیں لیکن اس صورتحال کے سماجی اور نفسیاتی زخم بھرنے میں ایک طویل مدت لگنے کا امکان ہے، کرونا وائرس سے سب سے زیادہ اموات ستر اور اسی سال کی عمر کے لوگوں کی ہوگی اس کے بعد پچاس اور ساٹھ سال کی عمر کے لوگ ہلاک ہونگے۔ لیکن کچھ اموات چالیس سال یا اس سے کم لوگوں کی اموات بھی بعید القیاس نہیں ہے۔ کچھ بچے بھی کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کے بعد زندہ نہیں رہے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی کسی بھی عمر کا انسان اس مرض میں مبتلا ہونے کے بعد ہلاک ہو سکتا ہے۔
آئیے اب ااپ کےساتھ ایک اچھی خبر بھی بانٹ دی جائے، حیرت ناک طور پر کرونا وائرس کے آتے ہی پاکستان میں اس مرض کا مقابلہ کرنے کیلئے تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔ ٹیسٹنگ کا بندوبست بھی کئی سرکاری ہسپتالوں میں ملک بھر میں موجود ہے جبکہ ابھی امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی ٹیسٹنگ کا معقول انتظام نہیں ہو سکا ہے۔
حال ہی میں ہمارے دوست جو امریکہ میں ڈاکٹر ہیں وہ پاکستان میں تین ہفتوں کی چھٹی پر گئے ہوئے تھے کل ہی ان سے بات چیت ہوئی، انہوں نے بتایا کہ صوبہ سندھ میں کئی سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں کرونا وائرس کی نہ صرف ٹیسٹنگ کا بہترین انتظام ہے بلکہ ہسپتالوں میں بھی انتظامات کافی حد تک بہتر کر دیا گیا ہے مریضوں کیلئے ہسپتالوں میں گنجائش کافی بڑھا دی گئی ہے یہ ایک خوشی کی خبر ہے!!!
٭٭٭