پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com
قارئین! کالم کے عنوان سے یہ اخذ مت کیجئے گا کہ پیر صاحب پیشگوئیوں پر آگئے ہیں، اس وائرس نے انسان عالم کو اس قدر پریشان کیا ہوا ہے کہ ہر آدمی ہر وقت اسی کرونا وائرس کا رونا رو رہا ہے، سوشل میڈیا چاہے فیس بک ہو یا واٹس اپ، ٹوئٹر اور انسٹا گرام ہر کوئی بغیر کسی تصدیق کہ یا کوئی علاج بتا رہا ہے یا اس کی بنیاد (کیسے اور کہاں سے شروع ہوا) بیان کر رہا ہے۔ لاک ڈاﺅن، شٹ ڈاﺅن، قرنطینیہ یا سماجی فاصلہ کے مارے لوگوں میں تنہائی کا احساس بھی بیماری کے خوف کی طرح بڑھتا ہی چلا جا رہاہے۔ دنیا کی تیز رفتار لائن Fast Line میں رہنے والوں کو آج کی سست رفتاری نے بور کر دیا ہے، لوگ اُکتانے لگے ہیں، پورا پورا دن گھروں میں گزارنے پر، کل تک گھر پر رہنے کو ترسنے والے بھی اب تنگ آگئے ہیں گھر پر رہتے رہتے۔ امریکہ اور چین ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کو حیاتیاتی جنگ کا مرتکب ٹھہرا رے ہیں۔ بہرحال امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ چین نے بروقت عالمی برادری اور خصوصاً امریکہ کو اس بیماری سے خبردار نہیں کیا۔ اس بیماری کے اوائل میں چین نے دنیا سے مخفی رکھ کر انسانوں کی زندگی کو بلا وجہ خطرے میں ڈال دیا ہے۔ بہرحال الزم تراشیاں ایک طرف لیکن اس وائرس کے کچھ فوائد بھی اب سامنے آرہے ہیں برطانوی ولی عہد، شہزادہ چارلس، برطانوی وزیراعظم بورس، اور مشہور اداکار اور ان کی اہلیہ جب اس وائرس سے متاثر ہوئے تو امیروں، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو سمجھ آگئی کہ یہ وائرس کسی طبقاتی تفریق کو نہیں گردانتا ہے بیماری کسی کوبھی ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹرز، نرسیں، ہسپتال کا عملہ یا عام ورکر اور تو اور پولیس والے بھی اس مرض کا شکار ہو چکے ہیں۔ اب تک تقریباً چالیس پولیس افسران اس مرض میں مبتلا ہو کر جاں بحق ہو چکے ہیں۔ یورپ پریشان ہے کہ تمام تکنیکی برتری کے باوجود ان کے یہاں زیادہ بیمار اور زیادہ اموات، ہو رہی ہیں لیکن ایشیائی ممالک جہاں آبادی گھنی ہونے کے باوجود کرونا کے مریض کم اور اموات بھی کم ہیں، آج عالمی سطح پر سب سے امیر اور زمینی سپر پاور امریکہ میں اس وائرس کے سب سے زیادہ مریض ہیں چین سے بھی کہیں زیادہ اور چین کے پڑوسی ممالک سے بھی کہیں زیادہ! آخر ماجرہ کیا ہے، اس کرونا وائرس سے طبقاتی اور جغرافیائی سرحدیں، مدہم ہو گئی ہیں۔ گلوبل ولیج یا عالمی گاﺅں کا تصور تیزی سے ایک واضح شکل اختیار کرتا جا رہا ہے ہم تمام عالم انسان ایک ہی گاﺅں کے لوگ ہیں ہمارے دکھ سکھ سانجھے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کی اہمیت جو موجودہ امریکی حکومت کے پیرس معاہدے سے علیحدہ ہو جانے سے گھٹ گئی تھی اب دوبارہ اہمیت کی حامل ہو گئی ہے، امیزان جنگل کے جل جانے سے اور دنیا بھر میں درختوں کی بے شمار تباہی سے جانوروں کی پناہ گاہیں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ا دھر انسانوں میں بھی جانوروں کو غذا کے طور پر استعمال کے بڑھنے سے جانوروں کی تعداد میں کمی دن بدن کمی آتی جا رہی ہے۔ معتبر سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اب تک جو وائرس یا بیماریاں جانوروں تک محدود تھیں وہ اب انسانوں میں منتقل ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ ماحولیاتی توازن انسانوں کے غیر ذمہ دار طرز عمل سے بری طرح متاثر ہو رہاہے آپ اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ جس دن شہد کی مکھیاں زمین پر نہیں رہیں تو دنیا تباہ ہو جائیگی۔ قدرت نے اپنی تمام تخلیقات کے درمیان ایک توازن قائم کر رکھا ہے جسے انسان بُری طرح تباہ کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ جب بھی یہ قدرتی، ماحولیاتی توازن بگڑے گا بڑی بڑی بیماریاں پیدا ہونگی بڑی بڑی تباہیاں، زلزلوں، طوفانوں اور سیلابوں کے ذریعے کرہ ارض پر نمودار ہونگی۔ اس لئے کرونا وائرس جو تباہی پھیلا رہا ہے ۔ اس کے بعد ماحولیاتی بہتری کی افادیت اور اہمیت بھی ہر ذی شعور انسان میں بڑھ جائیگی اور عالمی سطح پر اس موضوع پر بہتر فیصلے ہونگے۔
اس وائرس کا ایک اور بڑا فائدہ جو سامنے آیا ہے کہ فرد اور خاندان پہلی مرتبہ قریب اانے پر مجبور ہو گئے ہیں لاک ڈاﺅن گھروں کے کماﺅ پوت یا کماﺅ بیٹی، ماں اور بہن کو اپنے خاندان کےساتھ زیادہ وقت گزرانے کا موقع فراہم کیا ہے ایک دوسرے کا مو¿قف سمجھنے کا وقت دیا ہے۔ غلط فہمیوں کو کم کرنے کا ذریعہ فراہم کیا ہے۔ خاندان کےا فراد کی دوریاں خاندانوں کو کمزور کرنے کا باعث بنتی ہیں جو معاشرتی برائیوں کو سر اُبھارنے کا نتیجہ بنتی ہیں۔ صحتمند افراد سے صحتمند خاندان اور صحتمند خاندانوں سے صحتمند معاشرے جنم لیتے ہیں۔ اور صحت صرف جسمانی نہیں ہوتی ہے نفسیاتی صحت کے بغیر جسمانی صحت بے معنی ہوتی ہے یہ ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ فرد کی اہمیت بنیادی ہے لیکن خاندان یا گھرانہ معاشرے کی بقاءاور ترقی کیلئے نہایت اہمیت کا جز ہے گھرانہ یا خاندان فرد کو سپورٹ یعنی سہارا دینا یا فرد کی ترقی میں مدد گار ہونےوالا بنیادی یونٹ ہے۔ اس وائرس نے بچوں وک والدین سے بہن اور بھائیوں کو قریب کرنے کا موقعہ فراہم کیا، جن باتوں کو بیان کرنے کا موقعہ نہیں ملتا تھا وہ وقت فراہم کیا ہے تو قارئین وائرس کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں جو بیان کرنے کی کوشش اس خاکسار نے کی ہے۔
٭٭٭