Contagion 2011-Movie

0
863
شمیم سیّد
شمیم سیّد

شمیم سیّد،بیوروچیف ہیوسٹن

تمام دنیا میں جس طرح کورونا وائرس نے تباہی پھیلائی ہے اور ابھی تک یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ ہمارے اعمالوں کی سزا ہے اللہ تعالیٰ نے پوری قوم پر اپنا عذاب نازل کیا ہے یا یہ کوئی سوچی سمجھی اسکیم ہے اور اس کا موجد کون ہے، امریکہ نے چین پر الزام لگایا ہے اور چین میں ہی سب سے زیادہ اموات ہوئی ہیں لیکن جس طرح چین نے اس پر قابو پایا ہے جتنے لوگ مرنے تھے وہ مر گئے اور اس نے پورے ملک میں لاک ڈاﺅن کر دیا اور سختی کےساتھ اُس پر عمل کروایا اور تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ چین میں معمول زندگی واپس آگیا ہے اور اس کی صنعتوں نے کام کرنا شروع کر دیا ہے اور وہ تیزی سے وائرس سے متاثرہ لوگوں کیلئے آلات تیار کر رہے ہیں اس وقت جس تیزی کےساتھ امریکہ میں یہ وباءپھیل رہی ہے اس کے پیش نظر ہمارے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر لاکھ دو لاکھ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں تب بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ نیویارک اور لوزیانہ میں بہت تیزی کےساتھ مریض آرہے ہیں ہمارے ہیوسٹن میں کاروبار ٹھپ ہو گئے ہیں روڈوں پر سناٹا ہے لوگ گھروں سے نکلنے میں احتیاط کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بڑے برے گروسری اسٹوروں پر وہی رش دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس وقت بھی کچھ لوگ اور کاروبار ایسے ہیں جنہوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کھانے پینے کی اشیاءکے دام بڑھا دیئے ہیں ایک ہول سیل ہماری دیسی کمپنی ہے انہوں نے بھی اشیاءکے دام بڑھا دیئے ہیں وہ اسٹوروں کو سپلائی کرتے ہیں ایک سینٹائزر جو پہلے دو ڈالر کا بیچتے تھے اب وہ 9 ڈالر کا بیچ رہے ہیں ان کو خوف خدا نہیں ہے۔ انڈین اسٹوروں پر بھی یہی حال ہے آٹا کی قیمتیں بڑھا دی گئیں، ایسے لوگوں کی شکایات مقامی حکام کو کرنی چاہیے جہاں تک لوک ڈاﺅن کا تعلق ہے اگر امریکہ میں یہی حال رہا تو یقیناً ایسے اقدام کرنے ہونگے مگر ہمارے صدر ٹرمپ اپنے ملک کی معیشت کو تباہ ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے ان کے ارادے ہیں کہ ایسٹر تک وہ تمام کاروبار کھال دینگے جبکہ ان کی مخالفت بھی ہو رہی ہے ابھی تک لوگوں کو جو اپنے گھروں میں ہیں اور کاروبار بند ہیں کوئی امداد نہیں مل رہی ہے۔ ہماری پاکستانی کمیونٹی اپنی کوششوں سے کھانے پینے کی چیزیں مستحق لوگوں میں بانٹ رہی ہے۔ پاکستان قونصلیٹ اور پاکستان ایسوسی ایشن اور والنٹیئرز مل کر پاکستان سنٹر میں گروسری بکس بانٹ رہے ہیں، الشفاءوالے بھی کھانے کا انتظام کر رہے ہیں، سب اپنی اپنی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم ایف ایم ریڈیو کے ریحان صدیقی پانی اور سینیٹائزر گھروں میں پہنچا رہے ہیں ریڈیو دبنگ بھی سوائے ریسٹورنٹ پر پانی تقسیم کر رہے ہیں، اب جو بات ہمیں ہضم نہیں ہو رہی ہے وہ 2011ءمیں بننے والی فلم ہے جو بنائی گئی ہے کورونا وائرس پر اگر یہ معلوم تھا تو اس پر کام کیوں نہیں ہوا اتنی تباہی کے باوجود ابھی تک ویکسین تیار نہیں ہوئی ہے یہ تو آنےو الا وقت بتائے گا یہ کیمیکل کسی نے تیار کیا ہے اور تمام دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ فلم Countagion 2011 ضرور دیکھیں تاکہ دنیا یہ سمجھ سکے کہ حقیقت کیا ہے۔ بس ہم تو اللہ تعالیٰ سے دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اس وباءسے نجات ملے اور دنیا میں پھر سے کاروبار شروع ہو اور جو غریبوں کا نقصان ہو رہا ہے اس کا ازالہ ہو سکے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here