پاکستان پودے بونے والوں کا ملک اب نہیں رہا!!!

0
118
حیدر علی
حیدر علی

حیدر علی

کون کہتا ہے کہ پاکستان پودے بونے والوں کا ملک ہے؟ اِس کے بر مخالف حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کی جتنی دوائیں ایجاد کی گئی ہیں شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں اِس کی نوبت آئی ہو بلکہ میں نے جو اعداد و شمار جمع کیا ہے اُس کے مطابق پاکستان میں ہر گھنٹے کورونا وائرس کی کوئی نہ کوئی دوا منظر عام پر آجاتی ہے، دوا کے موجد سفید کوٹ پہنے اپنی بیگم اور بچوں کے ساتھ میڈیا کے کیمروں کے سامنے اِس کی افادیت بیان کرتے ہوے نظر آتے ہیں اور حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ اُن کی دوا کے فُل بکس کو حکومت فوری طور پر ساڑھے سترہ ہزار روپے میں خرید کر ہسپتال میں پہنچادے تاکہ مریض حضرات اِس کی ایک گولی نگل کر اپنے میڈیکل بیڈ سے کود پڑیں اور میدان میں دوڑ لگانا شروع کردیں بعض ایسی دوائیں ایجاد کی گئیں ہیں جس کے استعمال سے نہ صرف کورونا وائرس سے چھٹکارا حاصل ہوجاتا ہے بلکہ مریض کے قبض کی شکایت بھی دور ہوجاتی ہے۔ ایک اور موجد نے دعویٰ کیا ہے کہ اُس کے دوا کے استعمال سے نہ صرف کورونا وائرس کے ایک مریض کی یاد داشت بحال ہوگئی بلکہ وہ دوبارہ ایک شاعر بن گیا۔اُسکے دوست احباب اُسکی حالت دیکھ کر اُسے ہسپتال کے بیڈ پر چھوڑ کر بھاگ گئے تاہم بعض سائنسدان اپنے سفید کوٹ کو دیوار پر لٹکا کر ، ڈگریوں کو کلوزٹ میں بند کر کے ، وہی پرانے طریقہ کار کی جانب مائل کرم ہوگئے ہیں، اُنکا کہنا ہے کہ کورونا وائرس ایک بھوت ہے اور اِسکا علاج صرف جادو ٹونا سے ہی ہوسکتا ہے اُنہوں نے کہا کہ وہ اِس بھوت کو پھر سے بویام میں دوبارہ بند کرنے کیلئے بنگال کے جادوگر عبداﷲعبداﷲ ہوائی حملہ اور کاشی بنارس کے رتن مہا بھارت چرن سے رابطے میں ہیں اور قوی امید ہے کہ جلد ہی وہ اِن جادوگروں کو حکومت سے معقول معاوضہ دلاکر کورونا وائرس کے بھوت کو قابو میں کر لینگے تاہم بنگال کے جادوگر عبداﷲ عبداﷲ کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے مکمل خاتمہ کیلئے یہ ضروری ہے کہ فضا سے F-16 طیارے کے ذریعہ بحر ہند پر کتے کی ہڈیوں کے پا¶ڈر کو چھڑکا جائے۔
جادوگر عبداﷲ عبداﷲنے درخواست کی ہے کہ اُسے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کر ائی جائے تاکہ وہ اپنی تجویز کی اُنہیں وضاحت کر سکے، پاکستانی وزارت دفاع کے اعلیٰ حکام اُس کی درخواست پر غور کر رہے ہیں،ایک اور سائنسدان نے دعویٰ کیا ہے کہ نیم کے پتوں کا شربت صبح ایک گلاس پینے سے انسان کورونا وائرس سے محفوظ رہ سکتا ہے لیکن خبر آئی ہے کہ وہ سائنسدان خود بھی کورونا وائرس کا شکار ہوکر ہسپتال میں داخل ہے۔ مقامی طور پر کراچی کے علاقہ لانڈھی میں ہنگامی پیر بابا کورونا وائرس کے مریضوں کی تھیراپی کے ذریعہ علاج کر رہے ہیں، وہ مریض کو پلنگ پراُلٹا لیٹا کر اُس کی جھاڑو سے پٹائی کرتے ہیں جب مریض درد سے چیخنا شروع کر دیتا ہے تو ایک ہزار روپے لے کر اُسے مرض سے مبرا قرار دے دیتے ہیں لیکن بعض اُن کے ناقدین کا کہنا ہے کہ پیر بابا جن مریضوں کا علاج کرتے ہیں ، اُنہیں کورونا وائرس ہوتا ہی نہیں ہے بلکہ وہ محض شک وشبہ میں مبتلا ہوکر اُن کے پاس آجاتے ہیں،پاکستان میڈیکل بورڈ نے اعلان کیا ہے کہ لوگ صرف اُن پیر بابا¶ں سے اپنا علاج کروائیں جو اُن سے با ضابطہ طور پر رجسٹرڈ ہوں تاہم پورے پنجاب میں بدیسی مرض دیسی علاج کا سلسلہ عروج پر ہے اور لوگ جڑی بوٹی کا شربت پی کر اِس وائرس سے دور رہنا چاہتے ہیں بعض حضرات سبزیوں کا شربت پینے کو بھی عافیت جاں سمجھتے ہیں،دم کروانے اور کورونا وائرس کو اپنے سے دور رکھنے کیلئے لوگ دو نمبریہ مولویوں سے بھی رجوع کر رہے ہیں جنھوںنے دم کرنے کی فی کس فیس 100 روپے مقرر کر دی ہے۔ماہرین صحت نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ چکنی غذا کم سے کم کھائیں اور زیادہ سے زیادہ ورزش کریں، اِس عمل سے اُن کے جسم کی قوت مدافعت میں خاطر خواہ اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ کورونا وائرس کے حملے کا مقابلہ کرنے کے اہل بن جاتے ہیں۔
قطع نظر پاکستان میں کورونا وائرس سے نبرد آزما ہونے کی کوششوں کے امریکا میں پاکستانی کمیونٹی حکومت کے مشورے پر سختی سے عمل کر رہی ہے، مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ بیشتر اوقات امریکا کے صدر کچھ کہتے ہیںجبکہ نیویارک کے گورنر اور میئر کا موقف کچھ اور ہوتا ہے، حتی کہ میئر اور گورنر کے بیانات میں خود تضادات نظر آتا ہے، اِس کی بہترین مثال ماسک کے استعمال سے ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ گذشتہ ہفتے اپنی ایک پریس کانفرنس میں فرمایا کہ ماسک کا پہننا کوئی بہت ضروری نہیں کیونکہ وائرس انسان کی آنکھوں سے بھی داخل ہوسکتا ہے، اِس لئے ضروری ہے کہ لوگ اپنے گھروں میں ہی مقیم رہیں تاہم دوسرے دِن امریکی صدر اپنے موقف سے مکر گئے اور کہا کہ ماسک پہننا بہت ضروری ہے اور وہ تمام امریکیوں کو مشورہ دینگے کہ وہ ماسک پہنا کریںلیکن ذاتی طور پر اُنہوں نے ماسک نہ پہننے کا فیصلہ کیا ہے۔
گورنر نیویارک ماریو کیومو نے شیلٹر اِن پلےس کا ایک نیا شوشہ چھوڑ کر سارے نیویارکرز کو خوفزدہ کر دیا تھا، لوگ یہ سمجھ گئے تھے کہ شاید وہ سارے نیویارکرز کو کسی شیلٹر ہوم میں مقید کر دینا چاہتے ہیں، تمام مکتب فکر کے حضرات اپنے تحفظات کا اظہار کرنا شروع کردیا ، حتی کہ میئر ڈی بلازیو بھی اُن کے اِس بیان پر حیران رہ گئے تھے، بعد ازاں گورنر کیو مو نے اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوے کہا کہ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے سٹیٹ کے باسی سختی سے حکومتی احکامات پر عمل کریں، عموما” وہ احکامات کی فہرست نکالتے ہیں اور پڑھنا شروع کردیتے ہیں کہ شہریوں کو کیا کرنا چاہئے ، اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here