طارق عزیز: ایک عہد ساز شخصیت، ایک نظر میں

0
390

لاہور:

’’ابتداء ہے ربِ جلیل کے بابرکت نام سے، جو دلوں کے بھید جانتا ہے… دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام!‘‘ یہ الفاظ آج بھی ایک نسل کے ذہنوں میں تر و تازہ ہیں، جنہیں سنتے ہی طارق عزیز کے پروگرام ’’نیلام گھر‘‘ کی ابتداء یاد آجاتی ہے جو پاکستان کی تاریخ میں سب سے پہلا گیم شو بھی تھا۔

1975 میں شروع ہونے والا ’’نیلام گھر‘‘ جسے بعد ازاں ’’طارق عزیز شو‘‘ اور ’’بزمِ طارق عزیز‘‘ کے نام بھی دیئے گئے، طارق عزیز مرحوم کی شخصیت کا صرف ایک پہلو ہے کیونکہ وہ اس پروگرام کے میزبان ہونے کے علاوہ صداکار، اداکار، سیاست دان، ناشر اور شاعر تک رہ چکے تھے اور جو کام بھی کیا، اس پر اپنی چھاپ لگا دی۔

اپنی خدا داد صلاحیتوں کے اظہار سے ایک نیا باب رقم کرنے والے طارق عزیز 28 اپریل 1936 کو تاجِ برطانیہ کے ماتحت ہندوستان کے غیر منقسم صوبہ پنجاب کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میاں عبدالعزیز ’’پاکستانی‘‘ تحریکِ پاکستان کے پُرجوش کارکنان میں سے تھے اور انہوں نے 1937 ہی سے اپنے نام کے ساتھ ’’پاکستانی‘‘ لگانا شروع کردیا تھا۔

 

قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی طارق عزیز اپنے والدین کے ہمراہ ہجرت کرکے ساہیوال آگئے اور ابتدائی تعلیم بھی یہیں سے حاصل کی۔

یہ خبر بھی پڑھیں : معروف ٹی وی اینکر اور کمپیئر طارق عزیز انتقال کرگئے

 

بعد ازاں 1950 کی دہائی میں نوجوان طارق عزیز نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان لاہور سے کیا، جہاں انہیں ریڈیو سے خبریں پڑھنے کا خاصا تجربہ حاصل ہوا۔ ریڈیو کے اسی تجربے سے جناب طارق عزیز کو جس لب و لہجے کی عادت ہوئی، وہ مرتے دم تک ان کی شخصیت کا خاصّہ رہا۔

1964 میں جب پاکستان ٹیلی وژن کا آغاز ہوا تو اس چینل کی بنیاد رکھنے والوں میں ایک نام طارق عزیز صاحب کا بھی تھا، جہاں انہوں نے پی ٹی وی کے پہلے مرد اناؤنسر کا اعزاز بھی اپنے نام کیا۔ البتہ 1975 میں شروع ہونے والے ’’نیلام گھر‘‘ نے ان کی شہرت کو نہ صرف بلندیوں پر پہنچایا بلکہ ایسا دوام بخشا کہ ’’نیلام گھر‘‘ اور ’’طارق عزیز‘‘ ایک دوسرے کی شناخت بن گئے۔ اگرچہ اس پروگرام کی تاریخ تقریباً چالیس سال پر محیط ہے لیکن درمیان میں یہ کئی سال بند بھی رہا۔

پاکستان ٹیلی ویژن کے ابتدائی برسوں میں پروگرام ریکارڈ کرنے کی سہولت موجود نہ تھی۔ اسی زمانے میں طارق عزیز مرحوم نے نہ صرف پی ٹی وی کے کئی پروگراموں میں اداکار اور کمپیئر کی حیثیت سے کام کیا بلکہ براہِ راست نشر ہونے والے کچھ ڈراموں میں ہدایت کار کے فرائض بھی انجام دیئے۔

فلموں کے حوالے سے بات کی جائے تو مرحوم طارق عزیز نے فلموں میں بھی اداکاری کی۔ ان کی سب سے پہلی فلم انسانیت تھی جو 1967 میں ریلیز ہوئی۔ ان کی دوسری یادگار ترین فلم ’’سالگرہ‘‘ 1969 میں ریلیز ہوئی جو ’’میری زندگی ہے نغمہ، میری زندگی ترانہ‘‘ اور ’’لے آئی پھر کہاں پر، قسمت ہمیں کہاں سے‘‘ جیسے لازوال فلمی نغموں کی وجہ سے آج بھی مشہور ہے۔ اس فلم میں جناب طارق عزیز نے جج کا کردار بڑی خوبی سے ادا کیا تھا۔

یہ بات یقیناً دلچسپی سے خالی نہیں کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی اس فلم میں ایک چائلڈ ایکٹر کی حیثیت سے ہیرو (وحید مراد) کے بچپن کا کردار ادا کیا تھا۔

’’سالگرہ‘‘ کے علاوہ قسم اس وقت کی، کٹاری، چراغ کہاں روشنی کہاں، ہار گیا انسان وغیرہ جیسی معیاری فلمیں بھی مرحوم طارق عزیز کے کریڈٹ پر ہیں۔

بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ 1980 کے عشرے میں کراچی میں اپنے طویل قیام کے دوران جناب طارق عزیز نے دو رسالے بھی شائع کیے تھے: ’’پندرہویں صدی‘‘ اور ’’بچوں کا رسالہ‘‘ جو بہت معیاری اور خاصے کامیاب ہونے کے باوجود بھی چند سال سے زیادہ نہ چل سکے، جس کی وجہ اشاعت (پبلشنگ) کے امور سے جناب طارق عزیز کی عدم واقفیت تھی۔

یہ زمانہ وہ تھا کہ جب پی ٹی وی کراچی سے ’’نیلام گھر‘‘ ہوا کرتا تھا جس کی شوٹنگ ’’رنگون والا ہال‘‘ میں ہوتی تھی۔ کراچی میں بھی اس پروگرام کی شہرت اس قدر زیادہ تھی کہ اس کے پاسز بہت ہی مشکل سے ملتے تھے۔

’’بچوں کا رسالہ‘‘ کے ہر شمارے میں وہ کسی بھی شعبے میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے کسی ایک بچے کا خصوصی انٹرویو خود کرتے جس کی تصویر سرورق پر شائع کی جاتی۔ البتہ ’’پندرہویں صدی‘‘ میں زیادہ تر صاف ستھری کہانیاں اور قسط وار ناول شائع کیے جاتے تھے۔

ان دونوں جرائد کی ناکامی، بندش اور مالی نقصان پر طارق عزیز مرحوم بہت دل برداشتہ ہوئے اور حلقہ احباب میں رسالہ شائع کرنے کے تجربے کو اپنی زندگی کی ’’بدترین غلطی‘‘ بھی قرار دیا۔

کراچی میں قیام کے دوران ہی جناب طارق عزیز نے شادی کرلی۔ تاہم ان کی گھریلو اور شادی شدہ زندگی کے بارے میں صرف اتنا ہی معلوم ہوسکا ہے کہ وہ بے اولاد رہے تھے۔

فنونِ لطیفہ میں خدمات پر انہیں کئی ایوارڈ مل چکے ہیں جن میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے 1992 میں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی بھی شامل ہے۔

عشرہ 1990 کی ابتداء میں وہ دوبارہ لاہور چلے گئے اور اپنے آخری وقت تک وہیں مقیم رہے۔

مرحوم طارق عزیز ایک واضح سیاسی سوچ بھی رکھتے تھے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ جب 1969 میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے پاکستان پیپلز پارٹی قائم کی اور ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کا نعرہ لگایا تو وہ اس سے بہت متاثر ہوئے۔ لیکن 1989 میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو پہلی بار پاکستان کی وزیراعظم منتخب ہوئیں تو جناب طارق عزیز کی سوچ بھی تبدیل ہو کر مسلم لیگ (ن) کے حق میں خاصی حد تک استوار ہوچکی تھی۔

میاں محمد نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) سے سیاسی قربت اختیار کرتے کرتے 1997 میں وہ وقت بھی آیا جب طارق عزیز مرحوم نے اسی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر لاہور سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور اپنے مدِمقابل عمران خان نیازی کو شکست دی۔

لیکن چند ماہ بعد جناب طارق عزیز کی شہرت اس وقت داغ دار بھی ہوئی جب اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی ایما پر سپریم کورٹ، اسلام آباد کے احاطے میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کرنے والے ارکانِ پارلیمنٹ میں ان کا نام بھی لیا گیا؛ اور جس کی تصدیق سی سی ٹی وی فوٹیج سے بھی ہوئی۔

اس واقعے کے کچھ عرصے بعد ہی جناب طارق عزیز نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔

پچھلے چند سال سے وہ ٹوئٹر پر بھی سرگرم تھے اور ان کا ٹوئٹر ہینڈل @TariqAzizPTV تھا۔ اپنے انتقال سے صرف ایک دن پہلے انہوں نے اسپتال سے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’’یوں لگتا ہے وقت تھم گیا ہے، رواں دواں زندگی رُک گئی ہے۔ کئی دنوں سے بستر پر لیٹے لیٹے سوچ رہا ہوں کہ آزادانہ نقل و حرکت بھی مالک کی کتنی بڑی نعمت تھی۔ نجانے پرانا وقت کب لوٹ کے آتا ہے، ابھی تو کوئی امید نظر نہیں آرہی۔‘‘

نوٹ: طارق عزیز کا ٹوئٹر اکاؤنٹ کچھ دیر پہلے ہی ڈیلیٹ کردیا گیا ہے۔

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here