سلام آباد:
تحریک انصاف کی حکومت میں جاگیردار اور بھاری تنخواہ وصول کرنے والے طبقے کی آمدنی پرلگائے گئے ٹیکس میں زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔
ایک سال قبل پنجاب حکومت کی طرف سے کیے گئے فیصلے کے بعد جاگیردار،تنخواہ دارطبقہ کے مقابلے میں 85 فیصد کم ٹیکس ادا کرتاہے جو کہ مضحکہ خیزہے۔اسی طرح جاگیرداراور کاروباری طبقہ کے ٹیکس میں 150فیصد فرق پایا جاتا ہے۔جاگیردارطبقہ 500 روپے فی ایکڑیا اپنی آمدنی کا 15فیصد جو بھی زیادہ ہوٹیکس ادا کرتا ہے۔
آئین 1973ء کے تحت زرعی آمدنی پر ٹیکس ایک صوبائی معاملہ ہے۔زرعی ٹیکس میں نرمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کے بڑے صنعتکار بھی اپنی آمدنی کو زرعی ظاہر کرکے اپنی کاروباری آمدنی پر ٹیکس بچارہے ہیں۔
پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے جولائی 2019ء میں ن لیگ کی طرف سے زرعی آمدنی پرلگائے گئے ٹیکس کی سلیب میں کمی کردی تھی۔حالانکہ اس سے قبل جولائی 2018ء کے الیکشن سے قبل پی ٹی آئی کے رہنما اسد عمر نے ن لیگ کے زرعی آمدنی پر لگائے گئے ٹیکس سلیب کو سیاسی شعبدہ بازی قراردیا تھا۔اب پی ٹی آئی کی حکومت نے زرعی ٹیکس میں مزید نرمی کردی ہے اور جاگیرداروں کے 15فیصد کے مقابلے میں بڑا تنخواہ دار طبقہ اپنی آمدنی پر 35 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے۔
اگرتنخواہ دارطبقہ میں سے کسی کی آمدنی 10 لاکھ سالانہ ہو تو اسے کسی جاگیردارکی اتنی ہی آمدنی کے مقابلے میں 900 فیصد زیادہ ٹیکس دینا پڑے گا۔ایف بی آرکے کھاتوں کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں نے زرعی آمدنی پر ٹیکس میں 18.9ارب ڈالرکی چھوٹ بھی دے ڈالی۔