پیر کی صبح 10بجے کے لگ بھگ کراچی اسٹاک ایکسچینج کی عمارت میں دہشت گردوں کے حملے میں کم از کم 5 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں جب کہ تمام دہشتگردوں کو ہلاک کردیا گیا ہے۔ انتہاپسند قوتوں نے کراچی کو اس وقت ٹارگٹ کیا جب کہ ملک کورونا کے خطرناک وائرس سے نمٹنے کے ساتھ ایک اعصاب شکن سیاسی اور معاشی بحران سے دوچار ہے، اسٹاک ٹریڈنگ میکنزم آن لائن تھا، کاروبار جاری رہا، دہشتگردوں نے شہر قائد کو اپنے گھناؤنے مقاصد کے تحت ٹارگٹ کیا ہے، حملہ کے فوری بعد اسٹاک ایکسچینج کی بلڈنگ کو مکمل طور پر سیل کردیا گیا۔
ابتدائی انٹیلی جنس ذرایع کے مطابق دہشتگرد ساؤتھ زون کو ٹارگٹ کرنا چاہتے تھے، ذرایع کا کہنا تھا کہ دہشتگرد نیٹ ورک ملک بھر میں ابھی تک فعال ہے اور ان کے ہینڈلرز، سہولت کار، ماسٹر مائنڈز اور سلیپنگ سیلز شہر قائد سمیت دیگر مقامات میں ایکٹیو بتائے جاتے ہیں، مبصرین کے مطابق اسٹاک ایکسچینج پر حملے اور کراچی میں قائم چینی قونصلیٹ میں مماثلت ہے جس میں دہشتگردوں کو تباہی پھیلانے سے پہلے ناکام بنا دیا گیا تھا۔ پولیس اور رینجرز حکام نے بتایا کہ دہشتگردوں کی گاڑی بھی تحویل میں لے لی گئی ہے، ذرایع کے مطابق بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے حملہ کی ذمے داری قبول کی ہے۔
تفصیلات کے مطابق 4 دہشت گرد سفید رنگ کی ایک کار میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے احاطے میں داخل ہوئے، گاڑی سے نکلتے ہی انھوں نے فائرنگ شروع کردی۔ اس موقع پر عمارت کی سیکیورٹی پر تعینات گارڈز اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے انھیں روکنے کی کوشش کی، جس پر دہشت گردوں نے فائرنگ کے ساتھ ساتھ دستی بم پھینکے، دہشت گرد ٹریڈنگ ہال میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے، جہاں انھوں نے اندھا دھند فائرنگ کردی۔ فائرنگ کے تبادلے میں تمام دہشت گرد ہلاک جب کہ متعدد سیکیورٹی گارڈز جاں بحق اور زخمی ہوئے۔
حملہ آوروں نے ٹی شرٹ، جینز اور ٹراؤزر پہنے ہوئے تھے، دہشتگردوں کی جیبوں سے شناخت کی کوئی چیز نہیں نکلی، حملہ آوروں کی عمریں 22 سال سے 28 برس کے درمیان ہیں۔ دوسری جانب پولیس ذرایع کا کہنا ہے کہ 2 سے 3 مشتبہ افراد کو پولیس نے جائے وقوعہ سے گرفتار کیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کراچی اسٹاک ایکس چینج پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی اداروں نے بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا اور حملے کو ناکام بنایا، پوری قوم کو اپنے بہادر جوانوں پر فخر ہے، شہدا کے لواحقین سے دلی ہمدردی اور زخمیوں کی صحت یابی کے لیے دعا گو ہوں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واقعہ ملکی سلامتی اور معیشت پر حملے کے مترادف ہے، وبائی صورتحال کے پیش نظر ملک دشمن عناصر ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مزید چوکس رہنے کی ہدایت دیتے ہوئے واقعے کی مکمل تفصیلی انکوائری کر کے رپورٹ مانگ لی ہے۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے آئی جی سندھ سے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی ہے، انھوں نے کہا کہ اسٹاک ایکسچینج پر حملہ پاکستان کی معیشت پر حملہ ہے، اسٹاک ایکسچینج کو سیکیورٹی فراہم کرنا پولیس کی ذمے داری ہے، وزیر اطلاعات سندھ ناصر حسین شاہ نے کہا کہ حملہ آوروں کے پاس بھاری اسلحہ تھا، شر پسند عناصر کو کراچی کا امن ہضم نہیں ہوتا، وزیراعلیٰ سندھ نے پورے علاقے میں سرچ آپریشن کے احکامات دیے ہیں۔
اسٹاک ایکسچینج کی عمارت کے 2 مرکزی دروازے ہیں، پہلا دروازہ آئی آئی چندریگر روڈ اور اسٹیٹ بینک سے متصل ہے، پہلے دروازے سے بیریئر سے گزرنے کے بعد صرف خصوصی گاڑیوں کو داخلے کی اجازت ہوتی ہے، دوسرا دروازہ پاکستان ریلوے کارگو سے ملا ہوا ہے، عام افراد کو ریلوے کارگو دروازے سے داخل ہونے کی اجازت ہوتی ہے۔
سینٹرل پولیس آفسCPO بھی چند فرلانگ پر موجود ہے۔ دہشتگردی کے اس واقعہ سے ٹاور، بولٹن مارکیٹ سمیت آئی آئی چندریگر روڈ پر بھگدڑ مچ گئی۔ لیکن سیکیورٹی کارروائی کے فوری نتائج سامنے آنے اور حملہ میں ملوث افراد کی ہلاکت کی تصدیق کے بعد حالات پر قابو لیا گیا، نیٹی جیٹی، آئی سی سی اور آئی آئی چندریگر روڈ کو جلد کلیئر کرنے کے بعد ٹریفک بحال کردی گئی۔ دہشتگردوں کے عزائم اور اٹیکنگ اسٹرٹیجی کے بارے میں اطلاعات ابھی تحقیقاتی مراحل میں ہیں، تاہم دہشت گردوں کی آمد کے تین راستے تھے، ایک ٹاور اور نیٹی جیٹی سے، دوسرا بولٹن مارکیٹ یا آئی آئی چندریگر روڈ اور تیسرا امکان ریلوے گودام کے مقابل آنے والی اسٹریٹ سے ہوسکتا تھا جو اولڈ ایریا کے علاقہ کا ایک راستہ ہے۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا اپنا نجی سیکیورٹی نظام ہے، داخلی دروازوں پر واک تھرو گیٹس اور ہر آنے جانے والے فرد کی جامہ تلاشی لی جاتی ہے، عام طور پر بکتر بند گاڑی اسٹاک ایکسچینج کے احاطے میں مسلسل گشت کرتی رہتی ہے، احاطے پر 5 مسلح سیکیورٹی اہلکار تعینات ہوتے ہیں، 2 مرکزی دروازوں سے اسٹاک ایکسچینج کے احاطے میں مجموعی طور پر 20 اہلکار ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں۔ داخلی دروازے سے دائیں جانب انتظامیہ، سی ای او اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کے دفاتر جب کہ بائیں جانب ٹریڈنگ ہال، بروکرز اور ڈائریکٹرز کے دفاتر ہیں، گراؤنڈ فلور پر مختلف بینکوں کے دفاتر ہیں، کورونا وبا کے باعث پہلے ہی اسٹاک ایکسچینج اور بینکوں میں محدود اسٹاف آرہا تھا، اکثر دفاتر اور بینک کورونا کیس مثبت آنے پر بند تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ دہشتگردی کے نیٹ ورک نے سیاسی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک اعصابی جنگ شروع کی ہے جس کا مقصد ملک میں عدم استحکام کو ہوا دینا اور اپوزیشن جماعتوں کی باہمی محاذ آرائی کو مزید شے دینا ہے، سیاسی حلقوں کے خیال میں دہشتگرد ایک خاص ٹائمنگ کے تحت شہر قائد کو ہدف پر لینا چاہتے تھے، انھیں بھس میں چنگاری بھڑکانا تھی جس میں وہ ناکام رہے، لیکن وقت کا تقاضہ ہے کہ اس واقعہ کو روایتی انداز میں بھارت اور’’ را ‘‘ کی سازش قرار دے کر داخل دفتر نہ کیا جائے کیونکہ دہشتگرد پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کراچی کو زک پہنچانا چاہتے تھے۔
ان کا حملہ پاکستان کی معیشت و سلامتی پر تھا، دہشتگرد اگر ایکسچینج کی عمارت میں داخل ہوجاتے اور ان کی لڑائی طول پکڑ جاتی تو نقصان کا اندازہ لگانا ہی مشکل ہو جاتا، دشمن چاہے بھارت ہو یا عالمی طاقتیں یا اندر کے مضطرب سیاسی دھڑے، سب نے ایک دوسرے کے ساتھ سینگ اٹکائے ہوئے ہیں، سب غصیلے بھینسےraging bull بنے ہوئے ہیں جن کے نتھنوں سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں، ایسی صورتحال دہشتگرد نیٹ ورک اور ان کے فعال اور آزمودہ کار سہولت کاروں کے لیے سود مند ثابت ہوتی ہے، حکمرانوں کو بلوچستان کی سیاسی حساسیت کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔
فاٹا میں طالبان پھر سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں تشدد، تخریب کاری اور تصادم کی صورتحال پیدا کرنے کی کوششوں میں ہیں، پاکستان کی سلامتی کے اداروں اور پاک فوج کے افسروں اور جوانوں سے مڈبھیڑ کا کیا مقصد ہے، ارباب اختیار کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ میڈیا ملا منصور کی ریاست دشمن سرگرمیوں کے حوالہ سے ان کی پاکستان کے مختلف علاقوں میں املاک اور جائیدادوں کی تفصیل دے چکا تھا، وہ مارا گیا لیکن اس کے سہولت کار اب بھی اپنا وجود رکھتے ہیں، ان کی فعالیت کی نشاندہی دہشتگردی کے حالیہ واقعہ سے ہوتی ہے۔ دہشتگردی ایک مائنڈ سیٹ، ذہنیت اور کیفیت کا نام ہے۔
ملک میں سیاسی ہلچل ہے، تجزیہ کاروں نے حکومت سے نوشتہ دیوار پڑھنے کی استدعا کی ہے، خدارا سنجیدہ آوازیں سنی جانی چاہئیں، وقت احتساب اور خود احتسابی کا ہے۔ وزیر اعظم خوشامدیوں اور مفاد پرستوں سے دامن چھڑائیں۔ ان مانجھیوں سے دور رہے جو نیّا ڈبونے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔
وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ عوام کے پاس آج کوئی ’’چوائس‘‘ نہیں، جو کچھ کرنا یا جو انقلاب اور تبدیلی لانی ہے وہ حکومت ہی نے لانی ہے، یہ کیا کسی پاکستانی جولیس سیزر کی طرف سے آیا ہوا پیغام ہے؟یا پھر ضیاالحق یا جنرل پرویز مشرف کے انداز فکر کی کارستانی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہوچکی ہیں، اب حکمرانی صرف موجودہ حکومت کا حق ہے۔ لیکن فہمیدہ عناصر خبردار کر رہے ہیں کہ جمہوری عمل کے پیروں تلے زمین کھسک رہی ہے، کسی بیرونی طاقت اور جارح دشمن سے حکمرانوں کو اتنا خطرہ نہیں جتنا اپنوں سے ہوسکتا ہے، مگر حکومت کے لیے اب بھی وقت ہے کہ دہشتگردی کے ڈنگ سے سسٹم کو بچائے، وژن اور تدبر سے کام لے، سیاسی موسم گرما گرم ہوتا جا رہا ہے، حکمراں اپنے پیدا کردہ سیاسی منظر نامہ کے اسیر نہ بنیں، عوام کو ریلیف دیں، کورونا اور مہنگائی کو مار ڈالیں۔
غربت بڑھ گئی ہے، کورونا نے مجبوروں کو تگنی کا ناچ نچا دیا، معیشت کے بارے میں کہا جارہا کہ اسے 20 سالہ روگ لگ چکا ہے، لاکھوں افراد بیروزگار ہیں، بڑی صنعتیں نیم مردہ ہوچکی ہیں، ریونیو شارٹ فال کے تذکرے آسمانوں میں نہیں ایف بی آر کے سامنے ہو رہے ہیں، حکومت چومکھی لڑائی لڑنے پر کیوں مجبور ہے، محاذ آرائی بند ہونی چاہیے، تمام اسٹاک ہولڈرز کو مکالمہ کی دعوت دی جائے تاکہ سیاسی درجہ حرارت کم ہو۔ سیاست میں ٹھہراؤ لانے کی ضرورت ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی حلقوں میں جاری داخلی چپقلش، مختلف الخیال اتحادیوں کی ناراضی اور مذاکرات کے بے نتیجہ ہونے اور مطالبات اور شکایات کے خاتمہ کی یقین دہانیاں عملی حقیقت کا روپ دھاریں۔ دہشتگرد تو چاہتے ہیں کہ سسٹم ڈی ریل ہو، لیکن اہل سیاست کا کام ہے کہ وہ ملک کی سلامتی کو ہر شے پر مقدم رکھیں۔