حیدر علی
کراچی کے سلیم رضا جو کسٹم کے محکمہ میں اعلیٰ افسر رہ چکے ہیں ، اپنے دور ملازمت میں اُنہوں نے اوپر کی آمدنی سے حاصل کی ہوئی دولت کی ریل پیل کا شاندار مظاہرہ کیا تھا، اُنہوں نے نہ صرف کراچی کے ڈیفنس میں ایک انتہائی دلکش بنگلو تعمیر کروایا تھا بلکہ اپنے دو بیٹوں کو بھی امریکا اعلیٰ تعلیم کیلئے بھیج دیا تھا، اُنہوں نے اپنے ایک بیٹے کا جو کولمبیا یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے ، اُسکا رشتہ بھی کراچی کے ایک رشوت خور گھرانے میں طے کر دیا تھا لیکن گذشتہ کل امریکا کی نئی ویزا پالیسی کی اجراءکے بعد اُنہوں نے لڑکی کے گھر والوں کو رشتے کے سلسلے میں معذرت کا اظہار کردیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اُنہیں قوی امید تھی کہ اُنکا بیٹا تعلیم مکمل کرنے کے بعد امریکا ہی میں ملازمت حاصل کر لے گا لیکن اب اندیشہ ہے کہ امریکی حکومت اُس کے اسٹوڈنٹ ویزے کو معطل کردے گی اور اُسے امریکا میں قیام کرنے کیلئے وہیں کی کسی امریکی سٹیزن لڑکی سے شادی کرنا پڑے گی، اُنہوں نے مزید کہا کہ آن لائن ڈگری پلمبرز، راج ،مستری اور آٹو مکینک وغیرہ لیتے ہیں مگر کمپیوٹر سائنس ، اکنامکس اور ڈاکٹری کےلئے آن لائن تعلیم حاصل کرنا ایک مضحکہ خیز بات ہے، یہ ویسا ہی ہے جیسے کہ کوئی بستر پر ٹانگ ہلا کر تیرنا سیکھنے کی کوشش کر رہا ہو۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی تعلیمی درسگاہوں میں جن میں سکول ، کالج اور یونیورسٹی شامل ہیں آن لائن ٹیچنگ کے سخت مخالف ہیں، اُنہوں نے اِسی ایشو کو بارگیننگ چِپ بنا کر یونیورسٹی کے اعلیٰ حکام کے سامنے پیش کردیا ہے، اُنکا موقف ہے کہ یونیورسٹی اور کالج اپنے کلاس روم کا دروازہ کھولیں، چند احتیاطی تدابیر یں جن میں بوسہ بازی سے احتیاط، ماسک کا پہننا لازمی اور سوشل ڈسٹنسنگ کی پابندی کو ملحوظ خاطر رکھا جائے لیکن بعض یونیورسٹی کے اعلیٰ حکام اُنکے حکم کو سر تسلیم خم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اُن کی سب سے پہلی دلیل یہ ہے کہ یونیورسٹی کے قانون کو امریکی صدر کو وضع کرنے کا اختیار حاصل نہیںہے۔ دوئم یہ کہ بعض پروفیسرز جو اپنے گھر کا سرمایہ ہیں اور جو یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اُن کے ایجاد کردہ فارمولے کے استعمال میں آتے ہی وہ اربوں ڈالر کے مالک بن جائینگے، وہ بھی موجودہ صورتحال میں یونیورسٹی آنے میں تذبذب کا شکار ہیں،تیسرے وہ ہیں جن کا شجرہ نسب بندروں کے خاندان سے ملتا جُلتا ہے جو دیکھنے میں تو انسان معلوم ہوتے ہیںلیکن اُن کا دِل بندر کے جیسا چھوٹا سا ہوتا ہے۔
اِن ہی وجوہات کے پیش نظر پاکستان اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے صدر افتخار درانی نے کہا ہے کہ پاکستانی والدین کیلئے یہ ایک سنہرا موقع ہے کہ وہ اپنے بچوں کی شادیاں اُن پاکستانی لڑکوں سے کردیں جو امریکا اسٹوڈنٹ ویزا پر آئے ہوے ہیں، اُنہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق امریکا میں زیر تعلیم پاکستانی اسٹوڈنٹس کی تعداد 12 ہزار نفوس پر مشتمل ہے جن میں لڑکیوں کی تعداد 500 کے قریب ہے۔اُنہوں نے اِس مسئلے کے حل کیلئے ایک دفتر بھی کھول دیا ہے ، جہاں طلبا رضاکارانہ طور پر شادی کے خواہشمند لڑکے اور لڑکیوں کی کوائف جمع کر رہے ہیں ادھر معلوم ہوا ہے کہ بھارتی مسلمان طلباجن کا چند دِن قبل تک دماغ آسمان سے باتیں کر رہا تھا ، اب وہ اپنے گھٹنے ٹیک دیا ہے، پہلے وہ اِنڈین ایتھنک اور حجاب وغیرہ کی باتیں کرتے تھے لیکن اب وہ کہہ رہے ہیں کہ لڑکی اگر بھنگی بھی ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔بھارتی اسٹوڈنٹس کی تعداد لاکھوں میں ہے تاہم امریکا میں مقیم غیر ملکی سٹوڈنٹس میں چین سے تعلق رکھنے والے طلبا کی تعداد سب سے زیادہ ہے بعض امریکی لڑکیاں بھی پاکستانی نوجوانوں سے شادی کی خواہش کا اظہار کر رہی ہیں،اُنہوں نے اِس مقصد کے حصول کیلئے مسلم ویب سائٹ پر شادی کیلئے اشتہار دینا شروع کردیا ہے۔
امریکی یونیورسیٹیاں جو سال رواں کے موسم خزاں میں شروع ہونے والے کلاسز میں ذاتی طور پر طلبا کی شمولیت کو خارج از امکان کردیا ہے اور وہ طلبا کو آن لائن تعلیم دینے پر اصرار کر رہی ہیں، اُن یونیورسیٹیوں کے غیر ملکی طلبا کے ویزا کو نئے قانون کے تحت منسوخ کر دیا جائے گااور اُنہیں کہا جائیگا کہ وہ اپنے ملک میں واپس جاکر بھی آن لائن کورس مکمل کر سکتے ہیں،اُن غیر ملکی طلبا کو اِس بات کی اجازت نہیں ہوگی کہ وہ امریکا آکر آن لائن کا کورس یہاںکریںلیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شرائط ابھی قانونی شکل میں آئی بھی نہیں ہے کہ اِسکے خلاف امریکا کی دواوّل کی یونیورسیٹیوں نے مقدمہ دائر کرنے کا اعلان کردیا ہے، اُن یونیورسیٹیوں میں ہارورڈ اور ایم آئی ٹی شامل ہیں،ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر لارنس باکو نے کہا کہ ” اِس ضمن کا حکمنامہ بغیر کسی افہام و تفہیم کے بھیج دیا گیا ہے جو ناعاقبت اندیشانہ مہم جوئی کا مظہر ہے جو بات حکمنامہ سے ظاہر ہورہی ہے کہ کالجز اور یونیورسیٹیوں پر یہ دبا¶ ڈالا جارہا ہے کہ وہ طلبا، انسٹرکٹرز اور دوسروں کی تحفظ صحت کو نظر انداز کرکے موسم خزاں سے شروع ہونے والے کلاسز کیلئے اپنا دروازہ کھول دیں“امریکی یونیورسیٹیاں غیر ملکی طلبا سے سالانہ 40 بلین ڈالر کے قریب فیسیں وصول کرتیں ہیں، غیر ملک سے آئے ہوے ایک طالب علم کسی یونیورسٹی میں سالانہ کم ازکم 60 ہزار ڈالر فیس ادا کرتا ہے جبکہ امریکی شہری کی فیس اِس کے نصف ہوا کرتی ہے اور جو والدین کی شرح آمدنی کے متناسب ہوتی ہے، مثلا”نیویارک یونیورسٹی میں بے شمار پاکستانی نژاد امریکی طلبا مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن بعض کو 60 ہزار ڈالر سالانہ ادا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اُن کے والدین کی آمدنی ماشا اﷲ قابل رشک ہوتی ہیں۔