ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی
ہر قوم اپنے کیلنڈر کا آغاز جشن، مسرت، شادمانی، خوشی اور عید کے طور پرمناتی ہے جبکہ مسلمانوں کے کیلنڈر کا آغاز غم، دکھ، رنج، الم اورآہ وبکا سے ہوتا ہے،اس لئے کہ21ھ میں کربلا کے تپتے صحراءمیں نواسہ رسول کو ان کے اقرباءاور احباب سمیت بھوکا پیاسا ذبح کر دیا گیا۔محرم الحرام کی آمد سے قبل ہی دنیا بھر میں امام حسین علیہ السلام کی یاد میں مجالس عزا اور جلوس ہائے عزاداری کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔چاند رات سے ہی دنیا کے اطراف واکناف میں مجالس کا آغاز ہوجاتا ہے ،عشرہ محرم الحرام پر خرچ ہونے والے بجٹ کا مقابلہ دنیا کے بڑے سے بڑے ممالک نہیں کرسکتے۔امام حسین علیہ السلام کے نام کی نذر ونیاز جگہ جگہ بٹتی ہے شہدائے کربلا کی یاد میں سبیلیں لگائی جاتی ہیں، دنیا کی شائد ہی کوئی ایسی زبان ہو جس میں نواسہ رسول کی یاد نہ منائی جاتی ہو۔علماءکرام، ذاکرین، نوحہ خواں اور مرثیہ خوانوں کی بڑی تعداد دنیا کے مختلف علاقوں میں پہنچ کر عزاداری کے تقاضے پورے کرتی ہے۔یکم محرم الحرام سے شام غریباں تک مساجد، مراکز، حسینیہ جات، امام بارگاہوں اور عاشور خانوں میں مجالس عزا میں حاضری بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔یزید جیسے ظالم وجابر اور ڈکٹیٹر کا نام لینے والا کوئی نہیں جب کہ نواسہءرسول کا عشق ہر اہل درد کے دل میں موجزن ہے۔
محرم نئے تقاضوں کا متمنی ہے۔دنیا بھر میں مسلمانوں کو اپنے کردار عمل سے اسلام کا نظریہ امن اجاگر کرنا ہے دنیا کو فکر کربلا سے روشناس کرانا ہے ہے۔یزید جیسے ظالم حاکموں کے جرائم سے مکمل طور پر نقاب ہٹانا ہے۔حقیقی اسلام کے آفاقی اصولوں کو زبان زد عام کرنا ہے۔عشرہ محرم الحرام کی مجالس عزا مسلمانوں کی راہنمائی کیلئے بہترین درس گاہ ہیں ہر تعلیمی ادارے میں لیول ضرور چیک ہوتا ہے۔اس ادارے میں محبت کے سوا کچھ چیک نہیں ہوتا۔شہدائے کربلا کی قربانی کو سامنے رکھ کر مسلمانوں کو مجروح ساکھ بحال ہوسکتی ہے۔شہدائے کربلا نے حق و باطل، صدق وکذب، شرافت وذلت، خیروشر اور امن و دہشت میں امتیاز کا خط کھینچا۔آج مسجدوں کی اذانیں۔خانہ کعبہ کا طواف۔بقائے اسلام۔بقائے کلمہ طیبہ اور دین اسلام کا وجود ایثار کربلا کا نتیجہ ہے۔مقتولین بدر کا بدلہ لینے کا دعویدار یزید اپنی اصل جنگ ہمیشہ کے لئے ہار گیا ،اس نے شخصیت پروموشن چاہی تھی جبکہ امام عالی مقامؑ مذہب کی بقاءکا مقدس مشن لے کربڑھ رہے تھے۔محرم الحرام کی آمد سے قبل ایک طرف عاقبت نااندیش افراد یزید کی وکالت کی کوشش کرتے ہیں تودوسری طرف دہشت گرد عزاران حسینؑ پر گولیاں برساتے ہیں۔عشرہ محرم الحرام کے دوران خطباءو مقررین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اشتعال انگیز تقاریر سے گریز کریں۔جرائد ورسائل میں قابل اعتراض مواد شائع نہ کریں۔نوجوان جذبات کے ساتھ ساتھ حقائق بینی اپنائیں۔مملکت خدا داد میں فرقہ پرستوں نے مسجدوں میں نمازیوں کے قتل عام کا سلسلہ ابھی جاری رکھا ہوا ہے۔ارباب حکومت کے فرائض میں شامل ہے کہ دوران محرم امن وامان کو اپنی ترجیحی بنیادوں میں شامل رکھیں ،عشرہ محرم الحرام کی مجالس میں کیونکہ تمام فرقے شرکت کرتے ہیںلہٰذا اتحاد اسلامی کیلئے یہ بہترین پلیٹ فارم ہے۔(جاری ہے)
نواسہ رسول نے عشق توحید میں روضہ رسول کا جوار چھوڑ دیا تاکہ مدینہ میں قتل عام نہ ہو اسی لئے حج کے احرام کو عمرے میں بدل کر جوار خانہ کعبہ سے بھی کوچ کرلیا کیوں کہ بعض لوگ حاجیوں کے لباس میں امام حسینؑ کو قتل کرنے آئے تھے۔محرم الحرام میں جہاں امام حسینؑ کے قافلے کی تیاری کا ذکر ہوگا وہیں آپؑ کے وفادار یا روانصار کا تذکرہ بھی ہوگا۔دنیا میں امام عالی مقامؑ کی مصیبت پر غم منانے والے پہلے شخص صحابی رسول عروہ غفاریؓ ہیں جن کی کانوں کی سماعت اتنی کمزور تھی کہ بادلوں کی گھن گرج تک نہ سن سکتے تھے۔ان کی زوجہ کہتی ہیں کہ28رجب کے رات کے پچھلے حصے میں بستر پر اٹھ کر بیٹھ گئے اور حیرت سے کہنے لگے کہ میں تو کچھ سن نہیں سکتا مگر میں دیر سے محسوس کر رہا ہوں کہ بیبیاں زار وقطار رو رہی ہیں ان کی زوجہ نے عرض کیا۔کہ علیؑ وبتولؑ کی بیٹیوں کے رونے کی آوازیں ہیں۔گویا خاندان رسول کی مصیبتوں پر افسوس سنت صحابی رسول ہے۔صحابہ کرامؓ کے بہی خواہوں کو ذکر امام حسینؑ میں شرکت ضرور کرنی چاہئے۔ویسے بھی یزید صرف اہل بیتؑ کے قتل کا سبب ہی نہیں بلکہ صحابہ کرامؓ کا بھی قاتل ہے۔
کربلا اگر صرف دکھ بھری داستان ہوتی تو شائد اتنی دیر پانہ ہوتی یہ انسانیت کی ہدایت کی عظیم ترین یونیورسٹی بھی ہے۔جس سے شش ماہ بچے سے لیکر نوے(90)سالہ بوڑھے تک کے لئے کورس موجود ہے۔یہی وجہ ہے کہ چودہ صدیوں میں پڑھی سنی جانے والی دستان جب بھی دھرائی جاتی ہے تو اس میں نیا جوش وولولہ ہوتا ہے۔عزم واستقلال، ایثار و وفا، ہمت وصلاحیت، جذبہ وطاقت،جہاد واصلاح،شرافت ودیانت، غیرت وحمیت اور ربط خالق ومخلوق کا وہ جوش لہو میں کھولتا ہے کہ انسان خود کو ہی سچ سمجھ کر دین کو سب کچھ سمجھنے لگ جاتا ہے۔محرم الحرام میں شہادت عظمیٰ کے ہر پہلو کو اجاگر کیا جائے۔کربلا نے کالے گورے، عربی عجمی اور آقا وغلام کے امتیاز مٹا دیئے۔
اہرام مصر سے بابل نینوا۔موہنجودڑو سے ھڑپہ وٹیکسلا تک آثار قدیمہ کی تاریخ پھیلی ہے مگر ایسے اوراق نادر ہی کسی کے صفحہ قرطاس پر رقم نہیں جیسے کربلا کی دھرتی پر رقم ہیں۔عشرہ محرم میں جہاں حسینؑ جیسے سردار نوجوانان بہشت کا ذکر ہوگا وہیں جون جیسے حبشی غلام کو بھی یاد کیا جائےگا۔ہر امام بارگاہ میں ایک روزحرؓ کے ذکر سے مختص ہوتا ہے تاکہ لوگوں کو توبہ کی کشتی پر سوار ہونے والے چند گھنٹوں کے مہمان کی عظمت کا بھی احساس ہو صحابی رسول حضرت حبیبؓ بن مظاہر، مسلمؓ بن عوسجہ۔زہیرؓ ابن قین کا تذکرہ خصوصیت سے ہوتا ہے۔
وہب کلبیؓ جو تازہ مشرف بہ اسلام ہوا تھا۔اسکا تذکرہ بھی ہوتا ہے اور ظاہر ہے امام عالی مقامؑ کے اہل بیتؑ سرکار غازی عباسؑ۔حضرت علی اکبرؑ،حضرت علی اصغرؑ حضرت عونؑ ومحمدؑ حضرت قاسمؑ حضرت عبداللہؑ ابن حسنؑ اولاد عقیل اولاد جعفر طیار وغیرہ کا ذکر خصوصیت سے ہوگا۔ابن عابسؓ شاکری۔بریرہمدانی، نافعؓ بن ہلال جیسے شہداءکی سیرست کے پہلو اجاگر ہونگے کربلا میں ظالم ظلم سے تھک گیا مگر صابر صبر سے نہیں تھکا ایسے افراد جو ماتم نہیں کرتے انہیں میں نے تبرک تقسیم کرتے ہوئے دیکھا ہے یہ بھی ایک عقیدت کا رنگ ہے۔
امام حسینؑ نے کیونکہ ذہنیتیں بدل دی ہیں فکروں کو انقلاب بخشا ہے قوموں کو حیات دی ہے اس لئے غم حسینؑ کسی مذہب یا فرقے سے مختص نہیں ہے۔بلکہ ہر مذہب وقوم میں ذکر حسینؑ کا رواج ہے۔حتیٰ کہ جنوں میں بھی ذکر امام حسینؑ کا بہت رواج ہے۔راقم الحروف نے امریکہ کے ڈاﺅن ٹاﺅنز سے لے کر افریقہ کے جنگلوں تک یورپ کے کلیساﺅں کے پڑوس سے لیکر حجاز مقدس کی مساجد کے جوار تک۔ترک وفارس کے تکیہ جات سے لیکر شام وامارات کے حسینیہ جات تک ایران کے عزا خانوں سے لے کر عراق کے حوائر تک۔حیدر آباد دکن کے شاہی عاشور خانوں سے لیکر سندھ کے جھگی نشینوں تک۔کینیڈا کے برف پوش کہساروں سے لے کر سبی کی آگ برساتی وادیوں تک۔یوپی کے قدیمی امام بارگاہوں سے لے کر پنجاب کے کھلے امام باڑوں تک میں نے اپنی آنکھوں سے شہدائے کربلا کی یاد کے وہ مناظر دیکھے ہیں کہ کبھی کبھی غیر شعوری طور پر سوتے میں یا حسینؑ کی آواز نکل جاتی ہے۔
کربلا والوں نے ہمیں نامساعد حالات میں بھی دین پر چلنا سکھایا۔ذرائع ابلاغ کو چاہیے کہ وہ امامؑ عالی مقام کی فکر کو عام کریں۔محذرات عصمت نے واقعہ کربلا کو کربلا کے ریگزاروں میں دفن نہیں ہونے دیا اسی طرح ہماری خواتین مردوں سے بڑھ کر مجالس حسینؑ میں حصہ لیتی ہیں اللہ سب حضرات و خواتین کو جزائے خیر مرحمت فرمائے۔
اس سال کا محرم بہت سارے چینلجز لے کر آرہا ہے اور امت مسلمہ کو ایام محرم میں خاطر خواہ جدوجہد کی اشد ضرورت ہے۔اولاً امت محمدیہ کے درمیان وحدت واتحاد، مفاہمت ویگانگت اور عفوو درگزر کو رواج دینا ہوگا۔دوسروں پر فتوے لگانے کی بجائے اپنے گربیانوں میں جھانکنا ہوگا۔کربلا والوں کے پیغام کو نعروں تک محدود نہیں کرنا ہوگا بلکہ ان کے ایثار کو مشعل راہ قرار دے کر طاغوت سے نجات حاصل کرنی ہوگی۔ثانیاً اس مقدس انسٹیٹیوٹ ذاتی، خاندانی، فروعی یاعلاقائی مفادات سے ہٹ کر اجتماعی،آفاقی اور دینی مفادات کے لئے ذریعہ سمجھنا ہوگا۔ثالثاً بیت المقدس،کشمیر، یمن اور نائجیریا کی مظلوم عوام کی داد رسی کے لئے تحریک چلانی ہوگی۔رابعاً سوشل میڈیا،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ امام حسینؑ اور شہدائے کربلاؑ کی قربانی کے فلسفے کو اجاگر کرنا ہوگا۔خامساً کربلا کے انسٹیٹیوٹ بدعقیونی،بدعملی، کج فکری، ہٹ دھرمی، بداخلاقی، بدگفتاری، ظلم وتعدی اور لادینیت کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنے کے لئے استعمال کرنا ہوگا۔محرم کے اختتام پذیر ہوتے ہی چہار دانگ عالم میں حسینیت کی خوشبو پھیل گئی اور یزیدیت تعفن ختم ہوگیا تو سمجھیں کے ہم کامیاب ہوگئے۔
شاعر نے سچ کہا تھا
مظلوم سے الفت پیدا ہو آثار یزیدی مٹ جائیں
اس واسطے تیرے درد بھرے حالات سنائے جاتے ہیں