کامل احمر
ہمارے ایک عزیز دوست نے پچھلے ہفتہ ہم پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا”یہ کیا ہورہا ہے اور تم لکھاری لوگوں کو اس کی پرواہ نہیں“ان کا اشارہ اسرائیل اور عرب امارات کے درمیان سفارتی اور تجارتی تعلقات شروع کرنے سے متعلق تھاپھر انہوں نے سارے مشرق وسطیٰ اور سعودی عربیہ پر ملامت کا اظہار کیا ان کے نزدیک یہ بہت بُرا ہوا،ایک وہ ہی نہیں ہم سب کو برا لگا۔ہمارے ذہن میں سوال اٹھا اور فلسطین کا کیا ہوگا؟اس سے پہلے اسرائیل فلسطین کے کچھ علاقہ سے دستبردار ہوچکا تھا شاید یہ ایک اشارہ تھا اگر آپ مشرق وسطیٰ اورسعودی عرب کے اقدامات پر غور کریں جو انہوں نے ہندوستان کے معاملے میں اٹھائے ہیں تو آپ کو حیران نہیں ہونا چاہئے کہ ہندوستان جو پاکستان کا ازلی دشمن ہے(جس کا کوئی جواز نہیں)اور پاکستان سعودی عرب کی بادشاہت کا محافظ بھی ہے اس کے باوجود وہ پاکستان کو حقیر سمجھتا ہے اور ہندوستان کو اپنے سر پر بٹھاتا ہے وہاں بت پرستی کے لئے مندر بنانے کی اجازت دیتا ہے اور مودی مکار کو تمغہ دیتا ہے تو عرب امارات کے محمد بن زیاد نے اسرائیل کے نتھن یاہو سے دوستی کرکے کچھ برا نہیں کیا اگرچہ کہ اسرائیل اپنے پڑوس میں فلسطینیوں کو انکا حق دیتے اور جو کچھ بچ گیا ہے اس پر نظر نہ رکھے۔اس سے پہلے شاہ حسین اور مصر کے انور سادات نے اسرائیل سے امن کا معاہدہ کیا تھا1967کی جنگ کے بعد خود پاکستان کا رویہ فلسطینیوں کے ساتھ ڈھکا چھپا نہیں ایک طرف عوام ہیں جن کی ساری ہمدردیاں فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔لیکن دوسری جانب مرحوم ضیاءالحق نے جب وہ بریگیڈیئر تھے اردن کے شاہ حسین کے لئے کرائے کا فوجی بن کر ہزاروں فلسطینیوں کو موت کی نیند سلا دیا تھا۔کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ مسلمانوں میں بھائی چارہ نہ کبھی پہلے تھا اور منہ آج ہوسکتاہے۔عرب آپس میں لڑنے کے لئے مشہور ہیں وہ شاید خود کو مسلمان بعد میں عرب پہلے گردانتے ہیں۔لیکن ایسا ہی ترکوں کے ساتھ تھا وہ جب چھ سو سال سے زیادہ حکومت کر چکے تو عربوں کو جگانے اپنے مفاد میں مغرب نے انہیں ترکوں کے خلاف ورغلایا اور ان سے مل کر حکومت عثمانیہ جو ایک مسلمان حکومت تھی۔تحس نحس کر دیا اور ہم بھی ایسے ہی مسلمان ہیں جو شعور سے کام نہیں لیتے۔اس کی حالیہ مثال کشمیر ہے جو سیاست کی نذر ہوتا رہا ہے کشمیر ہندوستان کی آنا کا سوال ہے اور پاکستان کشمیر کو آزاد کرانے یا لینے میں دو مرتبہ جیتی ہوئی بازی ہار چکا ہے ایک لیاقت علی خان کے زمانے میں اور دوسری نوازشریف کے زمانے میں دوسری دفعہ نواز شریف کی غلامانہ ذہنیت جو ہندوستان کے تابع تھی اسکی وجہ بنی تھی۔پرویز مشرف اسی وقت سے نوازشریف کی منافقت کو جان چکے تھے اور اب ان کے حواری انہیں غدار کہتے ہیں یہ ایک الگ بحث ہے۔
پرویز مشرف کے دور میں اسرائیل کے ساتھ غیر رسمانہ طور پر ملاپ کی بات چیت تیسرے چینل کے تحت ہوئی تھی لیکن وہ صحیح وقت نہیں تھا وقت تو اب بھی مناسب نہیں کہ بہت سے سیاست دان اسرائیل اور کشمیر کے نام پر اپنی لیڈری چمکا رہے ہیں۔شاہ محمود قریشی کے حالیہ بیان پاکستان اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو آگے بڑھانے میں دلچسپی رکھتا ہے“ کی روشنی میں اگر ہم جائزہ لیں تو کہنا پڑے گا کہ وہ شاید سعودی عربیہ کے انتظار میں ہیں ویسے تو سعودی عرب کے تاجدار شہزادے محمد بن سلمان السعود اور ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد کشنر میں یارانہ ہے کشنر ڈونلڈ ٹرمپ کے نہ صرف داماد ہیں وہ انکے سینئر مشیر بھی ہیں ہمارا ایسا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ، شام، ایران، عراق افغانستان، فلسطینی اور اسرائیل کی پالیسی کے یہ ہی کرتا دھرتا ہے یہ بات سب جانتے ہیں کہ وہ نتھن یاہو کے چہیتے ہیں دوسرے معنوں میں نتھن یاہو ہی ان کو تربیت دے رہے ہیں لہٰذا صدر ٹرمپ کو کوئی پریشانی نہیں بس آخر میں دوطرفہ ٹیلیفونک کانفرنس جو صدر ٹرمپ نیتن یاہو اور محمد بن زیاد کے مابین تھی امن کی فاختہ پنجرے میں بند ہوگئی اور25سال بعد ٹرمپ نے یہ معاہدہ کرکے تاریخ میں اپنا نام لکھوالیا اس سے پہلے یہ اعزاز صدر کلنٹن لے چکے ہیںاور اس سے بھی پہلے42سال ہوئے جب جمی کارٹر نے مصر اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ کرا چکے ہیں ،دونوں کا تعلق ڈیمو کریٹک پارٹی سے تھا۔ٹرمپ پہلے صدر ہونگے جو ریپبلکن ہیں اور آج کے حالات میں کوئی حیران کن بات نہیں ہمیں حقائق کی روشنی میں سوچنا ہوگا پہلے اپنے گھر کو سنبھالنا ہوگا۔ترکی اگر طاقتور ہے اور مسلمانوں کی طاقت بن کر ابھر رہا ہے تو اسکی وجہ اردگان کے ساتھ وہاں کے عوام ہیں وہ عوام میں آکر کچھ بھی کہتے رہیں لیکن ترکی اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات ہیں اور یہ تعلقات نئے نہیں دونوں ملکوں کے درمیان1949میں سفارتی تعلقات یعنی امن معاہدہ ہوا تھا۔ترکی پہلا مسلمان ملک تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔
اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ ترکی پاکستان کا بھی محبوب ہے تو پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم کرنے میں کیا قباہت ہوسکتی ہے جب دوسرے ممالک اپنا اور قوم کا فائدہ دیکھتے ہوئے ایسا قدم اٹھا سکتے ہیں تو اب رکاوٹ کیوں البتہ کرنے سے پہلے ضروری ہوگا کہ اسلامی ممالک امریکہ کی مدد سے فلسطینیوں کو انکا ملک دیں جو اسرائیل کی کارستانیوں سے آزاد ہو۔اگر ہندوستان اسرائیل سے دوستانہ تعلقات رکھ کر فائدہ اٹھا سکتا ہے اور پاکستان کو تنہا کرنے کی سازشیں کرتا رہتا ہے تو وقت آگیا ہے کہ پاکستان نہلے پر دہلا کھیلے ملک اور عوام کے مفاد کے لئے۔
ایسا بھی کہنا ہے کہ آپ اہل یہود کے گھر میں کھانا کھا سکتے ہیں لیکن رات نہیں گزار سکتے اور عیسائی کے گھر میں سو سکتے ہیں لیکن کھانا نہیں کھا سکتے جب کہ ان دونوں سے باہمی تعلقات(ازدواجی تعلقات)بنا سکتے ہیں اہل کتاب ہونے کی وجہ سے ہمیں اور حکومت کو سیاست کو مذہب سے علیحدہ کرکے سوچنے سوچنے کی ضرورت ہے اور یہ بھی کہتے چلیں کہ اگر آپ فلسطین اور کشمیر کو ان کا حق دلوانا چاہتے ہیں تو سوچ کو بدلنا ہوگا۔