mukarampeer@gmail.com
پچھلے دنوں میرے کالموں میں زیادہ تلخی تھی، انداز تحریر جارحانہ تھا لیکن مواد میں مکمل حقیقت تھی، دراصل سچ کڑا جو ہوتا ہے کچھ دوستوں نے شکایت کی کہ ہتھوڑے چلا رہے ہو، اکثریت نے کالموں میں تحریری حقائق کو سراہا، کیونکہ اب لیپا پوتی سے کام نہیں چلے گا جبکہ ملک چاروں طرف سے دشمنوں میں گھِرا ہوا ہے اور آپ کے ہمدرد بننے والے ملک میں بھی آپ کو آنکھیں دکھا رہے ہو تو پھر ضائع کرنے کو وقت نہیں رہتا اور میٹھا میٹھا بول کر سچ حکمرانوں تک پہنچایا نہیں جا سکتا، حکمران طبقہ تو اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں اس مولوی کی مصداق کہ ہم تو حلوہ کھانے آئے تھے کھا لیا اب واپس لوٹتے ہیں۔ خدا کیلئے اب آوازوں کو مت دبائیں، خاموش کروانے سے مسئلے حل نہ ہوتے ہیں نہ ختم، آمرانہ نظام کی سب سے بڑی کمزوری ہے کہ وہ شطر مرغ کی طرح طوفان سے بچنے کیلئے ریت میں اپنا سر ڈال دیتا ہے اور اس طرح اپنے تعیں یہ سمجھتا ہے کہ طوفان ٹل گیا! لیکن دراصل ایسے ہوتا نہیں!
مشرقی پاکستان کو بھی اس لئے اپنے ساتھ نہیں رکھ سکے کہ اہل قلم و علم یا تو خاموش رہے یا خاموش کر دیئے گئے، آج سوشل میڈیا کا دور ہے خبر و خیال کو پھیلنے میں دیر نہیں لگتی، کشمیر کے معاملے میں ہندوستان جیسا ملک دنیا بھر میں آبادی کے لحاظ سے بڑا ملک جو کہ مغربی دنیا کیلئے دنیا کی سب سے بڑی منڈی (مارکیٹ) ہے، دنیا بھر میں اثر و رسوخ رکھنے کے باوجود سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی ملوکیت کو بھی رام کرنے کے باوجود آج دنیا بھر میں بدنام و رسواءہو چکا ہے، انسانی حقوق کے رکھوالے کشمیر میں اظہار رائے کی آزادی اور انسانی حقوق کی اپمالی پر ہر جمہوری ملک میں کشمیر پر کئے جانے والے مظالم پر سراپا احتجاج بن چکے ہیں، کینیڈا نے ہندوستانی پولیس کے ایک بڑے افسر کو محض اس بنیاد پر کینیڈین ویزا دینے سے انکار کر دیا کہ وہ کشمیریوں پر مظالم کے جرائم میں ملوث ہیں۔ امریکی کانگریس ممبران کے ایک وفد کو ہندوستان نے کشمیر جانے کی اجازت نہیں دی کیونکہ اس طرح کشمیریوں کی حالت زار نہیں چھپتی اور ننگا ظلم و جبر سے آگاہی ہونے پر ہندوستان پر پابندیاں لگنے کا امکان پیدا ہو سکتا تھا۔ جنرل صاحبان تو آج بھی سعودی شاہی خاندان کے چرنوں میں بیٹھے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی ریاستی نوکریاں پکی کر رہے ہیں لیکن سعودی عرب نے ہندوستان کےساتھ سب سے بڑا تجارتی معاہدہ اور دفاعی معاہدہ کر کے کشمیریوں کے سینوں پر نمک چھڑکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اُدھر عرب امارات کے بادشاہ نے اسرائیل کےساتھ سفارتی تعلقات بحال کر کے فلسطینیوں کو بتا دیا ہے کہ اب عرب شیوخ نے اپنا ناطہ اسرائیلیوں سے جوڑ لیا ہے، مجموعی طور پر آج مسلمانوں کا ساتھ اللہ کی ذات کے سواءکوئی نہیں، پاکستان بھی دن بدن تنہا ہوتا جا رہا ہے ایسے میں اقلیتی صوبوں (چھوٹے صوبوں) پر روز بروز بڑھتا ہوا ظلم و تشدد پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کر رہا ہے، اس حکومت کا تکیہ موجودہ امریکی حکومت پر ہے جس کی بنیادیں کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔ ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہونے کے آثار ریت کی دیوار کی طرح دن بدن ڈھلتے جا رہے ہیں، ملک میں سویلین اداروں کے سربراہان کی آسامیوں پر ریٹائرڈ جنرلوں کی تعیناتی نے بھی ایک مذاق کی صورت بنا دی ہے۔ سوشل میڈیا میں اب مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ فیسل مسجد کی پیش امامی اور مولوی منیب کی جگہ بھی اب ریٹائرڈ جنرلوں کو لگایا جائے، شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب کے بغیر او آئی سی اسلامی ممالک کی تنظیم کا اجلاس بلانے کی بات کر کے سعودی شاہی خاندان کے غم و غصہ کو دعوت دی ہے جس نے سعودی تیل کی ادھار پر سپلائی کو بند کرنے کی دھمکی دیدی ہے۔ سعودی عرب کی حکومت نے شاہ محمود قریشی کے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا ہے، جنرل باجوہ انہیں منانے سعودی عرب کے دورے پر پہنچ گئے ہیں، سعودی عرب کے محمد بن سلمان کے خیال میں ایران، ترکی اور چین سے پاکستان کو دوری اختیار کرنی ہوگی۔ اگر پاکستان سعودی حکومت کی نوازشات سے مستفیض ہونا چاہتا ہے، یہ تو کُھلم کُھلا پاکستان کو اپنے ہمسایوں سے دور کر کے کمزور کرنے کی سازش ہے۔ خود ہندوستان سے پینگیں بڑھا کر ہمیں ہمارے دوستوں سے محروم کرنا چاہ رہے ہیں۔ اقتدار میں رہنے والے لوگ اکثر زمینی حقائق کو بھلا بیٹھتے ہیں، ہم قلمکاروں پر واجب ہے کہ ہم انہیں آگاہ کرتے رہیں اور عوام کی بڑھتی ہوئی بے چینی سے با خبر رکھتے رہیں۔ یہی وطن پرستی کا تقاضہ ہے، کچھ دنوں پہلے دن دیہاڑے بلوچستان کے ایک نوجوان طالبعلم کو گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا او ریہ کارنامہ ایک نیم فوجی تنظیم نے انجام دیا، ایف سی نے حیات بلوچ جو CSS کی تیاری کر رہا تھا اسے سڑک پر لٹا کر آٹھ گولیاں اس معصوم نوجوان کے جسم میں داغ دیں۔ سندھ کے نامور ادیب کو پرائڈ آف پرفارمنس دیا جا رہا تھا جنہوں نے ایوارڈ لینے سے انکار کیا جس کیو جہ سندھ کے نوجوانوں کےخالف احتجاج بتائی، انہی کے نوجوان بیٹے کو اُٹھا لیا گیا سندھ میں پُرزور احتجاج ہوا، اب ان کے بیٹے کو چھوڑ دیا گیا ہے۔
٭٭٭