کراچی:
سندھ حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ شہر میں 40 سال کا بگاڑ فوری حل نہیں کرسکتے اور صرف شہرقائد کی ترقی کے لیے ماضی کی تلخیاں بھلا کر وفاق کے ساتھ بیٹھے ہیں۔
سندھ اسمبلی کے کمیٹی روم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس مشکل وقت میں وزیراعظم سندھ کے متاثرہ علاقوں کا نہ صرف دورہ کریں اور ان کی بحالی میں مدد بھی کریں۔ وفاقی حکومت سے زرعی قرضے معاف کرنے کی درخواست کی گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کی ترقی کے لئے لوگ دعویٰ تو کرتے ہیں پر وعدے وفا نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ 162 ارب کا اعلان وزیراعظم نے فروری 2019 میں کیا تھا اور سندھ حکومت نے اس اعلان کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے کہا کہ کراچی پر سب کا حق ہے لیکن کراچی میں کوئی ایک ادارہ کام نہیں کرتا کراچی کے کچھ علاقے وفاق کے پاس بھی ہیں ۔
ماضی کی تلخیوں کو بالائے طاق رکھ کر سندھ حکومت وفاق کےساتھ بیٹھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس پیکج کو بہتر استعمال کرتے ہیں تو اس سے بہت فرق پڑے گا۔ 11 سو ارب میں 800 سو ارب سندھ حکومت کے شامل ہیں۔ کچھ لوگوں نے اس حوالے سے بہت شور اٹھایا مگر ہم نے کوئی پریس کانفرنس نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا کراچی کے عوام فیصلہ کریں گے کہ کام کس نے کیا۔
انہوں نے کہا کہ کراچی سرکلر ریلوے کو اپنے کھاتے میں ڈال رہے ہیں جبکہ کراچی سرکلر ریلوے سی پیک کا حصہ ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی درخواست پر 2016 میں سی پیک کا حصہ بنا اور اس کی تجاویز تیار کرکے ہم نے وفاق کو دی تھیں اور ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ نے پی سی ون بنا کر وفاق کو دیا اور 3اکتوبر 2017 کو سندھ حکومت نے ایپنک کو دیا ۔ 18 اکتوبر کو اپینک نے بتایا کہ یہ تجویز منظور ہو چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریڈ لائن ماس ٹرانزٹ اسیکم ہے آئندہ تین سے چار ماہ میں اس کا کام شروع ہوجائے گا اس کے ڈیزائن تیار ہو چکے ہیں اور ملیر ایکسپریس وے پر بھی کام شروع ہونےوالا ہے۔ تین سے چار ہفتوں میں شروع کر دیں گے اور لنک روڈ کے بھی ٹینڈرز ہونے والے ہیں ۔ یہ اہم ڈیولپمنٹ ہوگئی ہے اب شاہراہِ ابراہیم حیدری اور دوسری ملیر کی شاہراہ بھی مکمل ہونے والی ہے اسے آئندہ تیس سے 45 روز میں مکمل کردیں گے۔
انہوں نے کہا کہ افتخار شالوانی اچھے افسر ہیں میں پر امید ہوں کہ وہ ایڈمنسٹریٹر کے طور پر معاملات کو بہتر انداز میں حل کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ بہت ساری جگہوں پر پانی نکال لیا گیا ہے اور بہت سی جگہوں میں سیوریج نے بیک کیا ہے۔ یہ صورتحال خراب ہے یہ 40 سال کا بگاڑ ہے اس کو فوری حل نہیں کرسکتے ہیں۔
’’بحریہ ٹاؤن کیس میں ملنے والی رقم سندھ کی ہے‘‘
بحریہ ٹاؤن کیس میں سپریم کورٹ میں جو پیسے ہیں وہ پیسے سندھ کے ہیں ۔ 60 سے 62 ارب روپے سپر یم کورٹ میں جمع ہوچکے ہیں۔ ابھی تک ہماری درخواست میں یہ فیصلہ نہیں ہوا ۔ وفاقی حکومت نے کہا کہ یہ پیسہ ہمارا ہے اس لیے فیصلہ نہیں ہوا جب ملیر ہمارا ہے تو پیسہ بھی ہمارا ہونا چاہیے۔ مقامی قیادت کہتی ہے کہ یہ سندھ کی امانت ہے لیکن وفاقی حکومت اس پر نظر لگا کر بیٹھی ہے۔ سپریم کورٹ بے شک اس پیسے کو مانیٹر کرے اور اس پیسے کو سندھ میں شفاف انداز میں لگایا جائے اس معاملے میں وفاق اور سندھ کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔