سردار محمد نصراللہ
قارئین وطن! ابھی کل کی بات لگتی ہے 6 ستمبر 1965 راقم کی عمر10 سال تھی گرمیوں کی چھٹیاں پشاور میں میں اور میری بڑی ہمشیرہ یاسمین ظہور لالیکا اپنے ماموں مرحوم خلیق الرحمان خان جو ڈسٹرکٹ منیجر پی آئی اے تھے کے ہاں دو مہینے گزار کر آئے اور ابھی ایک ہفتہ ہوا تھا اسکول کھ±لے ہوئے 6 ستمبر کا دن تھا قریباً 10 بجے صبح کا وقت تھا جب معمول سے ہٹ کر پیارے مِسی نے گھنٹا بجایا ہم سب بچے کلاسوں سے باہر آگئے ابھی ہم باہر ہی نکلے تھے کہ ایک زور دار دھماکہ ہوا جیسے کسی نے اسکول پر بم گرا دیا ہو، ا±س وقت پتا چلا کہ ہندوستان کی فوجوں نے پاکستان کی سر زمین پر حملہ کر دیا ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ اسی شدومد سے دوسرا دھماکہ ہوا ہم آٹھ دس بچے اپنے پی ٹی ماسٹر ان کا چہرہ یاد ہے نام بھول رہا ہے کہ ہم ان کو سر کہہ کر مخاطب کرتے تھے کہ ارد گرد جمع ہوگئے چونکہ وہ سابق فوجی تھے ہم لوگوں نے اپنے اپنے ذہن کے مطابق ا±ن سے سوال کرنا شروع کر دئیے آج بھی ان سے کی ہوئی گفتگو کا محور میرے ذہن میں نقش ہے ہم سب بچوں کا ایک مشترکہ سوال تھا کہ سر آپ بھی ہندو سے لڑنے جائیں گے ان کے چہرے کی سرخی اور جلال بتا رہا تھا کہ وہ اڑ کر محاذ جنگ پر پہنچنا چاہتے ہیں ہم لوگ تقریباً آدھ گھنٹہ ان کے ساتھ جنگ پر باتیں کرتے رہے مجھے یاد ہے ہم سب بچوں نے ان کو اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر رخصت کیا، میرا سکول سینٹ انتھونی ہائی اسکول میرے گھر سے ایک ہزار قدم پر ہوگا گھر پہنچا ہی تھا کہ اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ اور دوسرے محلہ کہ لڑکوں کے ساتھ مل کر سب فوجی بننے کی تیاری کر رہے تھے ،اتنے میں میرے ڈیڈی مرحوم سردار ظفراللہ دفتر سے تشریف لا رہے تھے ہم سب لڑکے ان کے گرد جمع ہوگئے اور میں نے ان کو کہا کہ ڈیڈی ایوب خان نے تقریر کی ہے کہ ہندو نے ہم پر حملہ کر دیا ہے میرے ڈیڈی چونکہ اپوزیشن میں تھے تو میں نے ان سے پوچھا کہ اب بھی آپ ایوب کے مخالف ہیں مجھے ان کا آج بھی یہ جملہ یاد ہے “ نہیں اب ہم اس کے ساتھ ہیں” یہ کہہ کر وہ گھر کی طرف چل دئے- اتنے میں وارث روڈ پر ایک فوجی چھاو¿نی جو ہمارے گھر کے قریب کوئینز روڈ سے فوجی گاڑیوں کا کارواں نعرہ تکبیر اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے باڈرکی جانب بڑھ رہے تھے ہم سب لڑکے بھی ان کے ساتھ نعرہ بلند کر کے رخصت کر رہے تھے۔قارئین وطن! میری والدہ نے مجھے حکم دیا کہ آپنی آپا یاسمین کو اسکول سے لے کر آو ان کے اسکول کونونٹ آف جیزز میری پہنچاتو ہر لڑکی کے چہرہ پر فاطمہ بنت عبداللہ کا جزبہ بہہ رہا تھا ہجوم میں گھری آپا کو آواز دی راستے میں فوجیوں کے ٹرک اور نعروں کی گونج میں گھر پہنچے تو ممی جان ب±رے وقتوں کے لئے نمبو¿ں کا آچار ڈال رہی تھیں جس کو بعد میں ا±رلی لگ گئی کہ اللہ کا شکر ب±را وقت دیکھنے کو ملا ہی نہیں ،71 دن کی جنگ پکنک میں گزر گئی۔
قارئین وطن ! 7ستمبر ہمارے پڑوسی” ڈبلیو زیڈ احمد “ جو پاکستان فلم انڈسٹری کے صدر بھی تھے اور ریگل سنیما کے مالک بھی کے گھر سے فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والا بڑا چھوٹا سب ہی فنکار اور فنکارائیں گلو گار اور گلو کارائیں جن میں ملکہ ترنم نور جہاں جو اپنے نغموں کے لیے خاص مقام رکھتی تھیں واہگہ باڈر کی جانب فوجی جوانوں کو سلام عقیدت پیش کرنے کے لئے رواں دواں تھے اور اپنا یہ حال تھا !
ہم نہ اِس صف میں تھے اور نہ ا±س صف میں تھے
راستے میں کھڑے ا±ن کو تکتے رہے ،رشک کرتے رہے!
شام ہوئی تو ڈیڈی سے اجازت لے کر پرانے الحمرا ہال کی گراونڈ میں اپنے دوستو زاہد حسین ، صادق ، شوکت بھائی کے ساتھ سول ڈیفنس کی ٹریننگ کے لئے چلے گئے جو میاں منظر بشیر شاہ دین بلڈنگ کے مالک تھے ،دادا بھی سر، نانا بھی سر، ہائے کیا لوگ تھے زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے، دن ہوتا تو لاہور شہر کی نظریں ڈاگ فائیٹ پر جمی رہتی ،ایم ایم عالم اور کیسے کیسے جواں ہمت ہوا بازوں نے ہندو جرنیلوں کے خواب چکنا چور کر دئیے کہ دوپہر کا کھانا جم خانہ کلب میں کھائیں گے میجر عزیز بھٹی شہید نشان حیدر نے اپنے جوانوں کے ساتھ مل کر بی آر بی نہر پر ہندو یلغار کو روک کر اور چونڈہ کے میدان میں شہریوں نے اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کر جنگ کی نئی تاریخ رقم کی ریڈیو پاکستان جب میرے نغمے تمہارے لئے ہیں، جنگ کھیڈ نئی ہو ندی زنانیاں دی،دودھ پیتے نےماواں پٹھانیاں دے،پ±ت ہونے ہاں پنجابیاں دے تو کراچی سے خیبر اور ڈھاکہ سے چٹاگانگ تک قوم کی رگوں میں خون دوڑنے لگتا ۱۷ دن کی جنگ ایک ایک دن اور ایک ایک واقعہ آج بھی اسی طرح نقش ہے رات ہوتی تو میری چھروں والی بندوق چاندنی رات میں ہندو چھاتہ فوجی کو مارنے کے لئے تیار رہتی کوئی فوجی گاڑی گزرتی تو عوام پھولوں کی پتتا±ں نچھاور کرتے اور اللہ اکبر کے فلک شغاف نعروں سے آسمان سر پر اٹھا لیتے ۔
قارئین وطن! لوگ جوق در جوق پاک فوج کے جوانوں کے لئے اپنے خون کا عطیہ دیتے اور ایک ایک پیسہ ٹینک خریدنے کے لئے جمع کرتے باڈروں پر فوجی بھائیوں کے لئے بسکٹوں کے ڈبے اور سگریٹ بھیجے جاتے ایوب خان کی تقریر اور کلمہ طیّب لااِلہٰاِلّاالّہّ±م±حَمّدر±ّسَو±ل±اللّہ نے لال بہادر شاستری اور اس کے جرنیلوں کے چھکے چھڑا دئے- ان ۱۷ دنوں میں میرے مشاہدے میں آج بھی ایک دو واقعہ ہیں کہ بہت سارے لاہور میں آباد بڑے بڑے رئیس خاندان جنگ سے بچنے کے لئے اپنے بچوں کو لے کر لاہور سے دور مقامات پر لے گئے تاکہ وہ محفوظ رہ سکیں لیکن اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ موت نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا اور ان کو سیف مقامات پر آن دبوچا اس لئے کہتے ہیں موت کا وقت اور جگہ متعین ہے ان ۱۷ دنوں نے کیا کیا غضب کے رنگ دکھائے قوم متحد تھی اور آج بے ہسی کے سمندر میں ڈوبی ہوئی ہے پس ذہنیت قیادتوں نے دو قومی نظریہ کو “آلو گوشت” کی لکیر سے ملا دیا ہے آج فوج کو گالی دینا فخر محسوس کرتے ہیں بے غیر تی کا یہ عالم ہے کہ ان کے گملو ں میں پیدا ہوتے ہیں جوان ہوتے ہیں اور ملک سے فرار ہو کر اس کے خلاف سازشیں کرتے ہیں لیکن یہ صرف ایک طبقہ ہے جو بیرونی شازشیوں کے ساتھ مل کر ہمارے غازیوں کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں لیکن پھر بھی قوم پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں ۔ آج ہم نے ۶ سپتمبر کے اس تاریخ ساز دن کو یاد رکھنا ہے ان شہیدوں اور غازیوں کو سلام پیش کرنا ہے جنہوں نے اپنے سے چھ گنا بڑے دشمن کے غرور کو خاک میں ملا دیا ورنہ آج کی جوان پود ذرا تصور کرے کہ اگر ہندو نے جس عزائم کے ساتھ ۶ ستمبر کو لاہور پر حملہ کیا اور وہ کامیاب ہو جا تا تو وہ جو حال نہتے کشمیریوں کا کر رہا ہے ہمارا بھی وہی حال ہونا تھا یہ فوج کے جوان ہی تھے جنہونے اپنی جانوں کے نظرانے پیش کرکے ہماری ماو¿ں بہنوں کی عصمتوں کی نگہبانی کی ہے اللہ کا کر ناہے کہ ۱۷ دن کی یہ جنگ بہادروں کی وجہ سے پکنک ہی رہی ورنہ میری والدہ نے بعد میں بتایا کہ میرے والد مرحوم نے اپنے ہاتھوں سے بیگم ظفراللہ اور اپنی دو بیٹیوں یاسمین اور انجم کو ابدی نیند س±لا دینا تھا اور تیسری بیٹی جو ابھی دو تین سال کی تھی کو ہماری گورنس شیلا شیلورٹن کے ہمراہ چرچ میں پناہ کے لئے بیجھ دینا تھا اگر ہندو کامیاب ہو جاتا اور میں چونکہ لڑکا تھا اللہ کے سپرد –
قارئین وطن! بس پھر کیا تھا ۱۷ دن کی جیتی ہوئی جنگ ہم ٹیبل پر تاشقند میں ہار گئے اور اس کی خوشی میں ہندو پرائم منسٹر لال بہادر شاستری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور اس کے بعد ہم نے اپنی جیت کی بہت بڑی قیمت چکائی بس اپنے شہیدوں اور غازیوں کو ۶ستمبر کو سلام پیش کریں اور ان بے غیرت لوگوں سے دور رہیں جو آج جبکہ پاکستان چاروں اطراف سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے وہ فوج کو دن رات گالیاں دینا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں ان پر لعنت بھیجیں اور اللہ کے حضور سجدہ شکر بجا لائیں کہ ہماری عزتیں محفوظ ہیں۔
٭٭٭