سراج الحق کی عمران پر شدید تنقید!!!

0
131
پیر مکرم الحق

 

پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com

جماعت اسلامی کے سربراہ مولوی سراج الحق پاکستان کے ان چند انگلیوں پر گننے والے سیاستدان ہیںجو غیر متنازعہ بردبار اور نہایت ایماندار انسان ہیں جوکہ پختونخواہ میں ایک اچھا خاصا اثرورسوخ رکھتے ہیں۔یاد رہے کہ عمران خان کے صوبہ سرحد کی پہلی حکومت میں اتحادی بھی رہے ہیں کل باجوڑ سپورٹس کمپلیکس میں ایک بہت بڑے جلسہ عام کو خطاب کرتے ہوئے مولوی سراج الحق نے عمران خان کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی تاریخ کے نااہل ترین وزیراعظم ثابت ہوئے ہیں۔انکی ستائیں ماہ کی حکومت کی ناقص پالیسیاں پاکستان کو تیزی سے ناکام ریاست بنانے کی طرف لے جا رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی ناکارہ معاشی پالیسی کے باعث مہنگائی، افراط زر اور بیروزگاری کو خطرناک حد تک لے گئی ہیں۔لاقانونیت اور بڑھتے ہوئے جرائم نے مل کر یہ ثابت کردیا ہے کہ یہی عمران خان کا حقیقی چہرہ ہے جو کہ اب کھل کر سامنے آگیا ہے، انہوں نے کہا کہ عمران خان نے عوام سے جو وعدے حکومت میں آنے سے پہلے کئے تھے وہ محض ایک دھوکہ اور فریب تھا ورنہ کم ازکم کسی ایک وعدے پر تو عمل کرکے دکھاتے۔سراج الحق نے وزیراعظم کی اینٹی کرپشن مہم کو ایک مذاق قرار دیتے ہوئے نشاندہی کی کہ جس سربراہ کی کابینہ میں بدعنوان وزیروں کی ایک فوج موجود ہو وہ کیا بدعنوانی کو روک سکتا ہے اور اگر وہ اس عمل میں سنجیدہ ہوتا تو بدعنوان وزیروں کو اپنی کابینہ میں ہرگز شامل نہیں کرتے۔اگر عمران خان واقعی بدعنوانی کو معاشرے سے ختم کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے آغاز اپنے وزیروں سے کریں جوکہ چینی اور گندم مافیا کے سربراہ ہیں یہی ایک راستہ ہے جس کے ذریعے وہ ملک میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی کو روک سکتے ہیں۔سراج الحق نے موجودہ حکومت کو ملکی اور ملکی اداروں کی ساکھ برباد کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت اب مزید حکمرانی میں رہنے کے قابل نہیں بلکہ مزید حکومت کرنے کا اخلاقی جواز کھو چکی ہے اس کے ساتھ انہوں نے جماعت اسلامی کی طرف سے حکومت مخالف تحریک کے آغاز کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے یقین دلوایا کہ جب تک جماعت اسلامی کی حکومت ختم کروانے کا ہدف حاصل نہیں ہوتا بھرپور مہم جاری رہے گی۔جماعت اسلامی وہ مذہبی جماعت ہے جس کی ملک بھر میں اسٹریٹ پاور موجود ہے۔پختونخواہ، پنجاب، سندھ اور بلوچستان اس کے علاوہ کشمیر(آزاد) میں بھی جماعت اسلامی موجود ہے۔تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں میں یہ جماعت ایک نہایت منظم ومتحد جماعت ہے جب بھی ملک میں مختلف ماضی کی حکومتوں کو گرایا گیا ہے اس میں جماعت اسلامی نے نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔فوج میں بھی نچلی سطح پر اس جماعت کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔جماعت اسلامی پڑھے لکھے باشعور لوگوں کی جماعت ہے۔یہ لوگ سوچ سمجھ کر اور حکمت عملی بنا کر کسی بھی کام کوانجام دیتے ہیں۔اب صورتحال یہ ہے کہ ”یک نہ شد دو شد“ مولانا فضل الرحمان کو حکومت رو رہی تھی لیکن ویسے وہ ہیں بھی متنازعہ شخصیت لیکن سراج الحق جو خالصتاً جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے حکومت مخالف مہم کا اعلان کرچکے ہیں۔سراج الحق صرف ایک غیر متنازعہ شخصیت ہیں ان پر آج تک کسی بے قائدگی کا الزام تک نہیں لگا ہے۔جن کی پشت پر ایک منظم اور متعدد جماعت اسلامی کی قوت ہے۔ان کی بات پر سچائی کی مہر ثبت ہے۔قارئین یہاں ایک بات آپ کو یاد دلاوں گا کہ راقم اپنی گزشتہ کالموں میں بھی یہی باتیں رقم کر چکا ہے اور آج مولوی سراج الحق کی باجوڑ میں کئے جانے والی باتیں انہی خیالات پر مبنی ہیں یہ بات خود نمائی کی کوشش نہیں بلکہ اس بات کا اعادہ ہے کہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو“آج پوری پاکستانی قوم یہی کچھ سوچنے پر مجبور ہوگئی ہے اور یہی باتیں سراج الحق کی تقریر کا حصہ تھیں تو اس سے ثابت یہی ہو رہا ہے کہ موجودہ حکومت کا جانا ٹھر گیا ہے۔اب دن گنے جاچکے ہیں قومی سلامتی کے ادارے بھی اب یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ یہ معاملہ زیادہ دیر نہیں چل پائیگا آج ہی کی ایک مستند انگریزی اخبار میں امریکہ میں پاکستان کی سابقہ سفیر ملیحہ لودھی(جوکہ مختلف فوجی اور سیاسی حکومتوں میں اہم عہدوں پر کام کرتی رہی ہیں)اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بات چیت ہو اور دونوں دھڑے اپنے شدید رویوں میں نرمی لائیں ۔قومی سطح پر ڈائیلاک کی ضرورت ہے۔محترمہ ملیحہ لودھی محض ایک ڈپلومیٹ نہیں بلکہ اسلام آباد کے پہلے انگریزی اخبار مسلمMuslimکی مدیرہ بھی رہی ہیں اور ایک پڑھی لکھی سمجھدار خاتون ہیں۔ان پر اسٹیبلشمنٹ بھی مہربان ہے اور انکی آواز فقطہ انکا ذاتی خیال ہی نہیں انہوں نے اس بیان کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کا اظہار کیا ہے۔فوج کبھی بھی اس حد تک حکومت کی حمایت نہیں کرتی جب اسے محسوس ہو جائے کہ عوامی مخالفت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ فوج کی ساکھ بھی متاثر ہوسکتی ہے۔اس لئے آنے والے دنوں میں پہلے تو اپنی حمایت کو آہستہ آہستہ واپسی کی راہ اختیار کی جائیگی اور پھر حکومت کےخلاف عدم اعتماد کی تحریک منظر عام پر آئیگی۔ویسے کوئی بھی مخلص دوست عمران خان کو یہی مشورہ دیگا کہ خان صاحب اب کوچ کرنے کا وقت قریب آپہنچا ہے۔عزت سے اقتدار سے الگ ہو جانے میں ہی خیر ہے کیونکہ اس میں عافیت ہے ورنہ پھر عزت جانے کا خطرہ برقرار رہے گالیکن زیادہ امکانات اسی کے ہیں کہ نیازی صاحب مندی بچہ کی طرح اقتدار کی کرسی سے چمٹے رہیں گے اور میں نہ مانو کی ضد کرتے رہیں گے پھر کیا ہوگا ؟اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here