کچھ باتیں یہاں کی ….کچھ جھوٹ وہاں کے!!!

0
131
کامل احمر

 

کامل احمر

امریکہ میں صدارتی انتخاب کی بھاگ دوڑ جاری ہے کہ کون جیتے گا؟ یہ انتخاب پچھلے نو دفعہ کے صدارتی چناﺅ سے مختلف ہے کہ کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ہے کہ صدارت کسے ملے گی ؟دوسرے یہ انتخاب قابلیت کی بجائے ووٹ ڈالنے والوں کی اپنی ذاتی سوچ اور مستقبل میں آنے والے حالات کے تحت ہوگا اور نتائج کے بعد ہی کہا جاسکتا ہے۔جیت بائیڈن کی ہوگی یا ڈونلڈ ٹرمپ کی ،دوسری بار بھی صدارت لے پائینگے۔دونوں کے لئے یہ بے حد مشکل وقت ہے اور اس دفعہ بھی پاپولر ووٹوں سے زیادہ الیکٹورل ووٹوں پر بازی لگی ہوئی ہے۔انتظار کرنا ہوگا3نومبر کے بعد کا اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔امریکہ کی سیاست سے باہر نکل کر آپ پاکستان کی سیاست پر بات کریں تو ہمیں ایک مذاق لگتا ہے ہمارے اپنے سندھ میں اتنے مسخرے سیاست کے نام پر کامیڈی ایکٹ کر رہے ہیں اچانک ٹی وی پر نظر پڑتی ہے جہاں سندھ کا ایک وزیر ناصر حسین کہہ رہا ہے ”سندھ میں گندم سب سے سستی ہے“انکے پیچھے ایک پوسٹر لگا ہوا ہے جس پر انگریزی حروف میں اردو لکھی ہے۔KHIDMAT MAIN SAB SAY AAGAY”خدمت میں سب سے آگے“ سندھ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں کہاں تک سچ ہے پورا پاکستان جانتا ہے کہ سب سے آگے سندھ ہے لیکن جھوٹ میں اوپر سے نیچے تک جیسے جھوٹ بولنے کا مقابلہ ہو رہا ہے۔جیت سندھ کی ہی ہوگی ہر چند کو پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے لندن سے سندھ میں عیش کرنے والا بلاول اب بولنا سیکھ گیا ہے۔فرفر اردو بولتا ہے عمران خان سے مقابلہ کرنے چلا ہے مولا بخش چانڈیو اور ایسے ہی بوڑھوں نے اس کا قد بڑا کردیا ہے اسکے آگے جھک جھک کر انکے گلگت بلتستان پر تحفظات ہیں۔اب ان سے کوئی پوچھے یہ تم کس کی زبان بول رہے ہو انکا شمار فرانس کی بے خبر بلکہ جیسی ہستیوں میں کرلیں جیسے روٹی اور کیک کا فرق نہیں معلوم تھا اور جب اسے محل کی سیڑھیوں سے گھیسٹ کر باہر لایا گیا تو اسے معلوم ہوا یہ سب بھوکے ننگے عوام ہیں۔لیکن اطمینان رکھئے سندھ یا پنجاب میں ایسا ہونے والا نہیں۔
رانا ثناءاللہ بھی گلگت بلتستان کے لئے بول پڑے انکا کہنا ہے”گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دینے کا اعلان خلاف قانون ہے“امریکہ میں ایک کہاوت مشہور ہے”TALK IS CHEAP“بک بک کرنا مفت ہے۔جیسا کہ نو ن لیگ کی مریم اورنگزیب چڑھ چڑھ کر بولتی ہیں اور خوب جھوٹ بولتی ہیں اور کبھی کبھی ہم سوچ میں بھی پڑ جاتے ہیں انکی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کچھ ایسا کہہ دیں جو ضرب الثمل بن جائے یا سنہری نہیں تو چاندی سے لکھ دیا جائے اور بھی کچھ نہیں تو میاں صاحب سن لیں کل ہی انہوں نے زریں الفاظ میں میڈیا پر آکر کہا۔”عمران خان کے انداز سیاست کی وجہ سے ملک میں مہنگائی ہے“اور اس سے پہلے باپ بچاﺅ تحریک کی بانی مریم نواز نے بھی بابو جی کو خوش کرنے کے لئے کہا”نوازشریف ملک کی پاسداری کی بات کر رہا ہے۔ایسا لگا جیسے کوئی ماں اپنے بچے کے لئے کہہ رہی ہو انکے ذہنی انتشار کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے والد کے لئے القاب بھی نہ لگا سکیں اور تو تڑاک پر آگئیں۔ملک کی گیارہ حماعتیں جو عمران خان کے خلاف مل بیٹھی ہیں جس کا ہم نے نام دیا تھا آل پاکستان ڈاکوموومنٹ“کیونکہ یہ سب اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کےلئے عوام کو گھیسٹ رہے ہیں۔ان سب کو خاص طور سے نون لیگ اور پیپلزپارٹی کو اللہ تعالیٰ نے کئی مواقع فراہم کئے لیکن ہر بار انہوں نے جمہوریت کے نام پر عوام اور ملک کو یا تو چور بنایا یا مظلوم ان سے انکا شعور بھی چھین لیا۔اور جب شعور کی بات آتی ہے تو ہمیں اس نام کی کوئی چیز نہیں ملتی۔دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی ابھی تک سیاستدان نے فوج کو سنا دیں اپنے آقا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ بھی کہہ یا کہ مجھے کوئی ندامت ہے اور نہ ہی شرمندگی ہمارے جنرلز بے چارے جو شعور سے خالی ہیں کچھ نہیں کر پاتے اور عمران کچھ کرتا ہے وہ ناکافی سے بھی کم ہوتا ہے ہمارا سوال ہے باجوہ صاحب سے جب آپ کو کوئی غلط بات یا غلط قوم نہیں اٹھاتے تو ان ڈاکوﺅں کو غلط فراہم الزام تراشی پر سزا ہی دے دیں۔اس کے لئے تو مائی باپ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔
اب ذرا پاکستانی سیاست کو چھوڑ کر نیویارک واپس آتے ہیں جہاںCOVID-19کا زور بڑھ رہا ہے۔لوگوں کو کہا جارہا ہے فاصلہ رکھیں لیکن ہمارے پاکستانی بھائی مذہبی جنون اور جزبے میں بھول بھول جاتے ہیں۔اسلامی تاریخ میں ربیع الاول کا مہینہ بے حد احترام کا ہے کہ اس ماہ ہمارے رسول کی پیدائش ہوئی اور اس ماہ میں ہی انکی وفات12تاریخ کو دھوم دھام سے پاکستان اور اب نیویارک میں منایا جاتا ہے۔گھر گھر میلاد ہو رہے ہیں۔اور یہ جزبہ سال بہ سال بڑھتا ہی جارہا ہے۔سبھان اللہ اس کے لئے پاکستان سے بہت سے جید عالم اور مولوی حضرات نعمت خواں بلائے جاتے ہیں کسی صاحب نے ایک پوسٹ ڈالی ہے اور کئی بڑی ہستیوں کے نام دیئے ہیں کہ یہ دن ان کی زندگی میں کئی بار آئے لیکن منانے کا حکم نہیں دیا۔متبرک ناموں میں چاروں خلیفہ اور چار بڑے اماموں کے علاوہ پیروں کے نام ہیں جن میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی، حضرت سلطان باہو، حضرت بابا فرید شکر گنج، حضرت معین الدین چشتی شامل ہیں نہ ہی ان شخصیات نے منایا اور نہ ہی منانے کا حکم دیا تو پھر آج کے پاکستان میں ایسا کیوں ہو رہا ہے۔یہ سب کچھ اچھا ہے میلاد ہندوستان کی تقافت کا حصہ تھا جہاں اس ماہ گھر گھر میلاد اور پورے شہر میں فضا قائم تھی۔جب کسی کو اعتراض نہ تھا تو اب کیوں ہو ہمارا یہ کہنا ہے کہ COVID-19کی وجہ سے احتیاط کی جائے ہم سب ایک ہی نبی کے چاہنے والے ہیں کاش ہم انکے بتائے ہوئے راستے پر چلیں کیا ایسا ممکن ہے؟ہم سب خود سے سوال کریں جواب مل جائے گا۔آخر میں ہم ایک اندوہناک خبر بتاتے چلیں جس کے ذکر سے دل پاش پاش ہو رہا ہے کہ یہاں کی معروف شخصیت کرنل مقبول ملک کے چھوٹے لخت جگر محمد مالک جو وکیل تھے اور انکی بہو نور شاہ(ڈاکٹر)جن کی شادی اکتوبر24کو ہوئی تھی۔اور جوڑا ہنی مون منانےBAHAMASمیں قیام پذیر تھا پرائیوٹ بیچ کے ساتھVILLAHمیں اتوار کی دوپہر حادثاتی طور پر سمندر کی بڑی لہروں کی نذر ہوگیا دونوں کی باڈیز ڈھائی گھنٹے بعد ملیں۔اس خبر کے پہونچتے ہی نیویارک کے حلقوں میں کہرام مچ گیا اللہ تعالیٰ کرنل مقبول ملک کو صبرجمیل عطا کرے(آمین)۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here