کلکتہ کا محمدن اسپورٹس کلب!!!

0
223
حیدر علی
حیدر علی

حیدر علی

کلکتہ محمدن کلب کی کہانی جہاں قدیم ہے وہاں تاہنوز نئی بھی کہی جاسکتی ہے، سابقہ مشرقی پاکستان سے جن لوگوں کا تعلق قریبی رہا ہے یا بنگلہ دیش کے فٹ بال کے دلدادہ یقینا اِس کلب کا کارنامہ جسے سنہرے حروف میں رقم کیا جائیگا ضرور سنا ہے، سب سے اول تو اِس کلب کی منفرد کہانی یہ ہے کہ کلکتہ شہر میں سال 1891 ءمیں قائم ہونے والا فٹ بال کا یہ کلب جس کی داغ بیل وہاں کے مسلمانوں نے ڈالی تھی نہ صرف ایشیا کا سب سے پرانا کلب ہے بلکہ اِس نے ہندوستان کے بے شمار شہرہ آفاق ٹورنامنٹ میں بحیثیت فاتح کپ یا شیلڈ کو اپنے سر سجایا ہے، 12دسمبر 1940ءکو Durand ٹورنامنٹ جس میں محمدن کلب کا مقابلہ Royal واروِک شائر رجمنٹ سے تھا جسے دیکھنے کیلئے ایک لاکھ سے زائد تماشا بیں دہلی کے اسٹیڈیم میں امڈ پڑے تھے۔ مسلمان سیاستدان بھوپال، کلکتہ ، حیدرآباد اور ڈھاکہ سے بذریعہ ہوائی جہاز میچ دیکھنے کیلئے دہلی پہنچے تھے۔ روایت کے مطابق اُس وقت کے وائسرائے کو میچ میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کرنا تھی لیکن میچ شروع ہونے سے قبل ایک چھوٹا سا ناخوشگوار واقعہ رونما ہوگیا۔ اُس تاریخی میچ کے ریفری کے فرائض کیلئے پہلی مرتبہ ایک ہندوستانی کیپٹن ہرنام سنگھ کو منتخب کیا گیا تھا لیکن اُس کے ماتحت دو گورے لائینز مین جنکا تعلق بھی فوج سے تھا یہ موقف اختیار کرکے کام کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ ہندوستانی کے ماتحت فرائض انجام نہیں دے سکتے ہیں۔ وائسرائے کیلئے یہ ایک انتہائی تضحیک آمیز بات تھی، اُنہوں نے دونوں لائینز مینوں کو کورٹ مارشل کرنے کی دھمکی دے دی©© بعد ازاں لائینز مین خوف سے فرائض کی انجام دہی پر راضی ہوگئے، میچ اپنے اختتام کو پہنچااور ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وہاں کی ایک ٹیم نے برطانیہ کی ٹیم کو دو گول سے شکست دے دی۔ سونے پر سہاگا کہ محمدن کلب کی ٹیم کے سارے کھلاڑی مسلمان تھے،محمدن کلب کی جیت نے مسلمانوں کی تحریک آزادی کو ایک ناقابل فراموش تقویت پہنچائی تھی،فٹ بال کھیل کے تمام مبصرین کی رائے ہے کہ 1940 ءکا محمدن کلب اپنی کارکردگی اور شہرت کے لحاظ سے اپنی تاریخ کے سب زیادہ عروج پر تھا۔ اِس کلب نے اُسی سال ٹریپل کراو¿ ن یعنی کلکتہ لیگ، ڈورانڈ اور Rovers ٹورنامنٹ جیت کر ایک تاریخ رقم کی تھی،تقسیم ہند سے قبل محمدن کلب نے نہ صرف کھیل کے میدان میں اپنی شوکت و عظمت کو بر قرار رکھا تھا بلکہ برصغیر ہندو پاک کی تحریک آزادی کی جدوجہد میں بھی پیش پیش تھا۔مسلمان اُس کلب کو مثال بنا کر اُس سے اپنے جذبہ جہاد کو موجزن کیا کرتے تھے محمدن پہلا انڈین کلب تھا جس نے متواتر پانچ سال ( 1934-1938) تک ایک انتہائی معتبر اور مقبول کلکتہ لیگ اور 1936 ء میں آئی ایف اے یکے بعد دیگر جیت کر مسلم قومیت کے جذبہ کو جس طرح اجاگر کیا تھا اِس امر کا کوئی ثانی نہیں بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بنگال میں محمدن کلب نے تحریک پاکستان کے ہرا دِل دستہ میں شامل تھااور تمام غیر منقسم ہندوستان کے مسلمان اِسے عقیدت بھری نگاہوں سے دیکھا کرتے تھے،قیام پاکستان کے بعد بھی محمدن کلب کی کار کردگی میں کوئی زیادہ کمی نہ آئی۔ وہ بزرگان ہند جو ہندوستان کی جمہوری نظام پر یقین محکم رکھتے ہیں ، اُن کے اِس اعتماد کو محمدن کلب نے 1948 ءمیں کلکتہ لیگ جیت کر جلا بخشا سال 1950 ءتک مشرقی و مغربی پاکستان کے کھلاڑی بدستور بھارت جاکر محمدن کلب کےلئے کھیلا کرتے تھے۔ اُن کی شرکت کی وجہ کر بھارت کا اسٹیڈیم گھچ پچ بھرا ہوتا تھا،صرف یہی نہیں بلکہ 1960 ءمیں نیپال کے شہزادہ ایک طویل سفر طے کرکے محمدن کلب کی نمائندگی کیلئے کلکتہ پہنچ گئے، وہ خود بھی فٹ بال کے ایک اچھے کھلاڑی تھے وہ پہلے ہندو تھے جنہوں نے محمدن کلب کیلئے کھیلا تھا بعد ازاں 1960 ءمیں محمدن کلب کے قوانین میں تبدیلیاں آنا شروع ہوگئیں اور تمام بین المذاہب کے افراد کو اِس کلب کا دروازہ کھول دیا گیا۔ اِس کی دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ اِس کلب کو بہتر مسلمان کھلاڑیوں کا ملنا دشوار ہوگیا تھا، سال 1980 ءاور 1981 ءکے محمدن کلب ، جس نے کلکتہ لیگ، Rovers کپ اور DCM جیتا تھا ، اُس میں اکثریت بنگالی ہندو کھلاڑیوں کی تھیں لیکن اِس کی وجہ کر محمدن کلب کے حمایتیوں میں کوئی کمی نہ آئی،یہ ہندوستان کا پہلا کلب تھا جس نے 1960 ءمیں ایک غیر ملک ڈھاکہ جاکر آغا خان گولڈ کپ میں انڈونیشیا کو شکست دے کر اپنا لوہا منوایا تھالیکن یہ تو تھی محمدن کلب کی ماضی کی شوکت و عظمت کی داستان ، لیکن عصر حاضر میں اِس کی کہانی انتہائی افسوسناک ہے، محمدن کلب کورونا وائرس کی وجہ کر زبردست مالی دشواری کا شکار ہے، 20 اکتوبر کو گووا میں 127 سال پرانا Durand کپ منعقد ہوا، اِس ٹورنامنٹ میں محمدن کلب کو اپنی چمپئن شپ کا دفاع کرنا تھا لیکن مالی بحران کی وجہ کر اِس نے شرکت کرنے سے معذرت کرلی چہ مگوئیاں زبان زد عام ہے کہ کلب کے بیشتر کھلاڑیوں کو تین تین ماہوں سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔ اوسطا”کلب سے وابستہ کھلاڑی ایک لاکھ ڈالر سے پانچ لاکھ ڈالر سالانہ کنٹریکٹ پر کھیلا کرتے ہیں، مالی دشواری کی وجہ یہ بھی ہے کہ اِس کلب کے ساتھ محمدن کا نام شامل ہونے کی وجہ کر اِسے شراب کے اشتہارات نہیں ملتے ہیں اور اِس کی ریونیو کی آمدنی صرف ٹکٹ کے فروخت اور ممبر شپ پر قائم ہے جس سے آج کے دور میں کسی اسپورٹس کلب کا چلنا نا ممکن ہے، ماضی کی طرح وہ حضرات جو پہلے اِس کلب کی دامے ، درمے ، قدرے، سخنے امداد کیا کرتے تھے، وہ بھی پیچھے کھسک گئے ہیں، اب سوال یہ زیر غور ہے کہ آیا اِس کلب کو عارضی طور پر بند کر دیا جائے یا مسلمانوں کی تاریخ کے اِس سنہرے باب کو ہمیشہ کیلئے دفن کر دیا جائے؟

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here