حیدر علی
ےہ بھی کےا اےک مضحکہ خےز امر ہے کہ مادر ڈے پر ماں کی قربانی کا چرچا زبان زد عام ہوتا ہے ٹےلےوےژن آن کےجئے تو اِسکرےن پر صرف ماں اور ماں پر فلمےں چلتی ہوئی نظر آتےں ہےں کہےں ماں اپنے خاوند کی شرٹ کو استری سے جلاتی ہوئی نظر آتےں ہےں، تو کہےں خاوند اپنی بےگم کے سامنے روٹی اور سالن، جی ہاں سالن جس مےں نمک ندارد، اور اُبلا ہواگوشت جو ٹرےکٹر ٹرےلر کے ٹائر کے جےسا سخت ہوتا ہے، بےچارا زہر مار کر رہا ہوتا ہے لےکن مائےں خوشی کے مارے پھولےں نہےں سماتی ہےں۔ پھولوں کا گلدستہ چار سو اُن کے گرد پھےلا ہوتا ہے، اُن مےں سے کچھ گلدستہ اُن عاشق نامراد کی جانب سے ہوتا ہے جو برسوں برس سے اِس نےک کام کی خواہشوں کو دِل مےں چھپائے بےٹھے ہوتے ہےں، ےہ اور بات ہے کہ جب خاوند کی نگاہ اُن پر پڑتی ہے تو وہ چےخ پڑتے ہےں اور ہانپتے ہوے کہتے ہےں کہ”اُس مردود کو گُلدستہ بھےجنے کی کےا ضرورت تھی“لےکن عاشق نامراد موقع بھی ہے ، اور رسم بھی ہے اور دستور بھی ہے کا پورا پورا فائدہ اِسی بہانے اٹھالےتا ہے It’s a mother day
لےکن جہاں مادر ڈے پر ماں کی قربانی کو مدنظر رکھا جاتا ہے، وہاں فادر ڈے پر باپ اپنی کمزوری کو چھپانے مےں کوئی دقےقہ فردگذاشت نہےں کرتے ہےں، سےنٹرل پارک مےں وہ پانچ مےل کی دوڑ لگاکر لوگوں کوےہ دھوکہ دےنا چاہتے ہےں کہ ابھی تو وہ جوان ہےں، اپنی مونچھوں اور زلف پرےشاں کو Just For Men کی رنگت سے آراستہ کرکے وہ اےسا روپ دھار لےتے ہےں، جس سے لےلہ بھی شرما جائے اور مجنوں بھی رےگ و زار کی کسی گھاٹی مےں جاکردبک کر چھپ جائے تاہم اِس حقےقت مےں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کی گنجائش نہےں کہ فادر کی تمام تر کوشش ےہی رہتی ہے کہ وہ اِس کرہ ارض کے تمام باسےوں کو ےہ ثابت کردے کہ وہ Man of The Houseہے ، اُس کے بغےر دنےا کا کوئی کام کاج روبعمل نہےں ہوسکتا،وےسے دےکھنے مےں ےہی آےا ہے کہ مسٹر فادر نے جس کام مےں بھی ٹانگ اڑائی، اُس کام کا آدھا تےتر آدھا بٹےر ہوگےا۔ مثلا” وہ اگر کسی کو چھوڑنے ائےر پورٹ گئے تو لازما”اپنی گاڑی کو کسی دوسری سے ٹھونک دی اور جس سے سائڈ کے آئےنے مےں اتنا شگاف پڑگےا کہ کوئی اپنی شکل دےکھے تو مونسٹر معلوم ہو اور اگر وہ گھر کے کسی کام کو مثلا”باتھ روم کے ٹوٹے ہوئے نلکے ےا ڈرائنگ روم کے الےکٹرک آ¶ٹ لےٹ کو ٹھےک کرنے کا ذمہ اپنے سر لے تو بس آپ ےہ سمجھ لےں کہ ےہ اُس نلکے اور آ¶ٹ لےٹ کا آخری دِن آن پہنچاہے اور اگر وہ کسی کے رشتے کے سلسلے مےں کسی کے گھر گئے تو رشتہ تو دور کی بات ، وہ اُس گھر والے سے جھگڑ کر آگئے اور پھر آج کا کام کل پر چھوڑنا تو ہمارے فادروں کا طرہ امتےاز ہے، ہر کام کو ےہ کہہ کر ٹرخادےنا کہ ابھی ذرا سو لوں ، جب اٹھونگا تو کردونگا اُنکی پرانی عادت ہے اور سونے پر سہاگا ےہ کہ اےسی عادتوںکے باوجود وہ ےہ توقع کرتے ہےں کہ ساری دنےا اُن کی گُن گائے۔
دراصل فادروں کی غفلتوں کا نتےجہ ہم آئے دِن اپنی جےتی جاگتی زندگی مےں دےکھتے ہےں، کتنے فادر اپنی پِدرانہ ذمہ داری کو خوش اسلوبی سے نبھاتے ہےں، والدےن کی ذمہ داری صرف ےہ نہےں ہوتی کہ وہ اپنے بچّوں کو پےسہ کمانے والی مشےن بنانے کےلئے جدو جہد کرےں، اُن کے فرائض مےں اِس امر کا بھی شامل ہونا لازمی ہے کہ وہ اپنے بچّوں کو تعلےم کے علاوہ اےسی تربےت سے بھی آراستہ کرےں جوبچوں کی زندگی کو پُر خطر راہوں سے بچ نکلنے کا طرےقہ سکھائے۔اِس ضمن مےں پاکستانی فادروں کو ہم Fکا ہی گرےڈ دے سکتے ہےں، ہم نے پاکستان کےا ےہاں بھی بارہا سناہے کہ اےک ہی گھر کے اےک نہےں دوبچّے ڈوب کر ہلاک ہوگئے ہےں، وجہ اِس کی صرف ےہ تھی کہ اُن معصوم بچّوں کے والد نے اُنہےں تےرنا سکھانے کو اپنی ذمہ داری نہےں سمجھا تھا،
امرےکا مےں تقرےبا” 700بچّے ہر سال ڈوب کر ہلاک ہوجاتے ہےں، بدقسمتی سے اُن بچوں مےں سےاہ فام امرےکی، ہسپانوی اور پاکستانی بچّوں کی تعداد 70%فےصد ہوتی ہے، لاہور کے LHکنال مےں اِس سال کے آغاز سے اب تک 80 ، جبکہ کراچی کے ساحل پر سےنکڑوں افراد ڈوب کر ہلاک ہوچکے ہےں۔ اِس کالم کی تحرےر جاری تھی کہ کراچی کے ساحل ہاکس بے پر تےن افراد موت کی آغوش مےں سوگئے مضحکہ خےز بات ےہ ہے کہ روزنامہ جنگ ہر ڈوبنے والے کے بارے مےں ےہی تحرےر کرتا ہے وہ لوگ سمندر مےں نہانے کےلئے گئے تھے۔ ارے او اُردو کے بقراط و سقراط ساحل سمندر پر کراچی کا کوئی شہری نہانے نہےں بلکہ سےر و تفرےح ےا ذہنی آسودگی کےلئے جاتا ہے، اور ڈوب جاتا ہے، بدقسمتی سے والدےن ےہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہےں
کہ بچّے ڈوبنے کےلئے ہزاروں ترکےب استعمال کر سکتے ہےں،وہ اپنے پڑوس کے گھر مےں جاکر اُسکے سوئمنگ پول مےں کود سکتے ہےں، وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ ساحل سمندر ےا نہر پر جاسکتے ہےں، ےہ اور بھی زےادخطرناک بات ہے کہ آپ کے بچّے کے دوست کو تو تےرنا آتا ہو لےکن آپ کے بچے کو نہےں۔ وہ اپنے دوست کی خواہش پر درےا، سمندر ےا نہر مےں آگے جانے کےلئے متمنی ہوسکتا ہے اور باآسانی ڈوب سکتا ہے، ہمےں تو ےہ جان کر سخت دھچکا پہنچتا ہے کہ بعض بچوں کو ےہ بھی نہےں پتا ہوتا کہ تےرنا کےا ہوتا ہے؟ اِس کا جاننا کےوں ضروری ہے؟ اِسکے جانے بغےر پانی مےں کودنا ےا درےا ےا نہر کے قرےب جانا موت کو دعوت دےنے کے مترادف ہے ےا نہےں،کم از کم اُن بچوں کے والدےن کو جنہےں تےرنا نہ آتا ہو، اِس اسرار و رموز کا عقدہ کھول دےنا لازمی ہے، عموما”ےہ دےکھا گےا ہے کہ بعض بچے اپنے دوستوں کے ہمراہ کسی سوئمنگ پول پر جاتے ہےں، اُن مےں بعض کو تےرنا آتا ہے، وہ پول مےںفورا”ڈبکی لگا دےتا ہے، اُس کا دوست جسے تےرنا نہےں آتا ہے ، اُس کی تقلےد کرتے ہوے ، وہ بھی غوطہ لگادےتا ہے، اور ےکلخت ڈوبنے لگتا ہے، ڈوبتے ہوے بچّے ےا شخص کی پہچان ےہ ہوتی ہے کہ اُسکا سر پانی سے کبھی اوپر آتا ہے ، اور کبھی نےچے چلا جاتا ہے، ڈوبنے والا شخص اپنے حواس کو کھو دےتا ہے، وہ بچا¶ کی اپےل بھی نہےں کرسکتاکےونکہ جب وہ اپنے منھ کو کھولتا ہے، تو پانی بھر آتا ہے، اِسلئے اُسے کم از کم اپنی ہتھےلی کے اشارے سے مدد کی اپےل کرنا چاہےے، دس سال کی عمر مےں جب مےں بھی درےا مےں ڈوب رہا تو اپنی ہتھےلی کے اشارے سے مدد کی اپےل کی تھی ہماری ماسی درےا کے کنارے کپڑے دھو رہی تھی، وہ چےخنے لگی تھی۔ دوسرے بنگالی نوجوان جو قرےب ہی تےر رہے تھے فورا”مستعد ہوکر، مےر ے سر کے بالوں کو پکڑ کر کھےنچنا شروع کردےا تھا بعض مجھے ٹھوکر مارکر ساحل کی جانب دھکےل رہے تھے اور اﷲ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ مےں مکمل “بچ گےا تھا لےکن دوسری مرتبہ جب مےں ڈوبنے والا تھا تو اپنی حاضر دماغی کی وجہ کر خود ہی نوک شمشےر کے وار سے بچ گےا تھا، تفصےل اُس کی کچھ ےوں ہے کہ بچپن مےں جب مےں اےک مرتبہ اےک چھوٹے سے پُل سے سےلابی پانی کے تےز دھار کو غور سے دےکھ رہا تھا، تو کسی منچلے شخص نے مجھے اُس مےں دھکا دے دےا اور مےں اُس دس فٹ گہری آبی رےلے مےں گر پڑا، گرتے ہی مےں نے اپنی عقل سلےم کے سارے درےچوں کو کھول دےا تھا مےں اپنے ہاتھ اور پےر کو تےزی سے پانی مےں مارتے ہوے ساحل پر بحفاظت پہنچ گےا، مےں سمجھتا ہوں کہ پانی کے تےز بہا¶ نے مجھے ساحل تک پہچانے مےں تعاون کےا تھا، وہ حادثہ خطرناک لےکن مجھے تےرنا سکھانے کا باعث بن گےا جو ڈوب گےا سو ڈوب گےا جو بچ گےا وہ سےکھ لےا جےسا کہ آپ جانتے ہےں کہ پاکستان مےں تےرنا سےکھنے کا ےہی طرےقہ کار ہے تاہم مےرا ضمےر مطمئن ہے کہ مےں اپنے بچّوں کو زندگی کے اِس خطرناک باب سے محفوظ رکھنے کےلئے کوئی غفلت نہےں برتی، مےں اپنی بےٹی کو جب وہ صرف 15ماہ کی تھی ، تےرنا سکھانے کےلئے YMCAلے گےاتھا اور مےری جنونی کےفےت کی وجہ کر وہ چند ماہ مےں ہی تےرنا سےکھ گئی تھی، اِسی طرح مےں نے اپنے جڑواں بےٹوں کو بھی صرف جب وہ اےک سال کے تھے ، تو YMCAلے جاکر تےرنا سکھانے کے فرض سے عہدہ بر آ ہوگےا تھا، لےکن ےہاں مےں ےہ عرض کردےنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ بچوں کو تےرنا سکھا دےنا ہی کافی نہےں بلکہ پابندی سے اُسکی مشق کرانا بھی لازمی ہے،امرےکا مےں تےرنا کسی بھی YMCA مےں سےکھا جاسکتا ہے، کوئنز کےWorld Ice Arena مےں بچے اور اسٹوڈنٹ مفت تےرنا سےکھ سکتے ہےں،ےہ اےک سنہرا موقع ہے، ماحولےات کے بدلتے ہوے تناظر مےں ہمارے لئے ےہ لازمی ہوگےا ہے کہ ہم درےا، سمندر اور سوئمنگ پول سے اپنا رشتہ استوار کرےں ، اور اُسے اپنی زندگی کا حصہ بنالےں، ہمےں سپر storm سےنڈی سے سبق لےنا چاہےے جس کے رےلے مےں کتنے بچے اپنی ماں کے ہاتھوں سے چھوٹ کر پانی مےں بہہ گئے تھے، ہمےں ماہر موسمےات کی اِس پےشنگوئی کو نظر انداز نہ کرنا چاہےے کہ آئندہ 50 سال بعد لانگ آئلےنڈ کا علاقہ زےر آب آجائےگا،اِس صورتحال مےں ہمےں مزےد عقل و فراست کا مظاہرہ کرنا ہے، لےکن شومئی قسمت کے تا ہنوز ہم خواب خرگوش مےں مبتلا ہےں۔ اےک اندازے کے مطابق نوّے فےصد پاکستانی بچّے تےرنے سے نابلد ہےں جتنے پاکستانی بچّے برانکس سائنس ہائی اسکول ےا بروکلےن ٹےک مےں زےر تعلےم ہےں، اُن مےں سے پانچ فےصد بھی ساحل سمند رپر نظر نہےں آتے ہےں، ےہ اےک سنگےن مسئلہ ہے اور مزےد ہماری بے اعتنائی کا متحمل نہےں ہوسکتا۔کراچی کے اےک سوئمنگ پول پر جب باپ اور بےٹا اپنے دوست اور فےملی کے ساتھ گئے، تو باپ پانی سے اتنا زےادہ خوفزدہ تھا کہ وہ سوئمنگ پول کے گرد دوڑنے لگا، اور اُسکے دوست پےچھے پےچھے اُسکا تعاقب کر رہے تھے، بالآخر باپ نے کال کرکے پولےس بُلا لی، اب آپ اندازہ لگا سکتے ہےں کہ اےسے باپ کی اولاد کو تےرنا سکھانا کتنا کھٹن کام ہے، پانی سے خوف کھانا ہمےں اےرانےوں سے ورثہ مےں ملا ہے۔