پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com
جنرل اسد درانی سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی(ای)کا نام میڈیا کیلئے قطعاً نہیں وہ جنرل صاحب تھے جنہوں نے جنرل اسلم بیگ(اس وقت کے آرمی چیف) کے کہنے پر پی پی او بےنظیر مخالف سیاسی عناصر میں چودہ کروڑ تقسیم کیے تھے تاکہ پی پی پی انتخابات میں کامیاب نہ ہوپائیں۔یہ مقصد کئی سالوں سے سپریم کورٹ کے ایسے دراز میں بند ہے جسے چھونے سے سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے پر جلتے ہیں۔انہی درازوں میں گمشدہ لوگوں کا کیس بھی بند ہے، کیا کریں جج صاحبان بھی ہماری طرح وہ بھی بندوق سے نکلتی ہوئی گولی سے خائف ہیں۔جنرل اسد درانی صاحب کوئی معمولی جنرل نہیں ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ انٹر سروسز انٹیلی جنس کے سابق سربراہ، جرمنی میں پاکستان کے سابق سفیر اور کئی کتابوں اور ریسرچ پیپرو کے مصنف اس کے علاوہ کئی ٹی وی ٹاک شوز میں کھل کر بات کرنے والے تجزیہ نگار رہے ہیں۔اور اب بھی کرتے رہیں گے لیکن حالیہ کچھ دنوں میں جنرل باجوہ کے عتاب کا نشانہ بن گئے ہیں۔اور وزارت دفاع نے تو یہ تک بھی کہہ دیا کہ جنرل درانی کمپرومائیز ہوگئے ہیں۔جاسوسی کی زبان میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ دشمنوں کے ساتھ مل گئے ہیں۔جس کی بنیادی وجہ یہ بتائی جارہی ہے۔کہ جنرل درانی نے ہندوستان کی انٹیلی جنس کے ایک سابق سربراہ کے ساتھ ملکر ایک کتاب رکھ ڈالی ہے۔جس کا عنوان دی اسپائی کرونیکل2018ءمیں شائع ہونے والی کتاب انگریزی زبان میں دنیا بھر میں بیچی جارہی ہے۔یہ کتاب بنیادی طور پر تین معتبر اشخاص کی ملی جلی کاوش ہے جن میں جنرل درانی کے علاوہ ہندوستانی ایجنسی(RAW) کے سابق سربراہ جوکہ1999ءسے2000ءتک اس ادارے کے چیف رہے تھے لیکن یہ بنیادی طور پر ایک کیرئیر جاسوس ہیں۔جسے انگریزی میںSPYMASTERبھی کہا جاتا ہے۔1965ءمیں انڈین پولیس سروس میں بھرتی ہونے والے یہ دولت صاحب،کشمیر میں انٹیلی جنس بیورو کے جوائنٹ ڈائریکٹر بھی رہے بعد میں اسپیشل ڈائریکٹر کشمیر بھی رہے۔اور ان کا آفری عہدہ بطور ایک سرکاری افسر تھا۔چیف آف (RAW) جوکہ2000ءمیں اپنے انجام کو پہنچا۔جس کے بعد انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی لیکن پھر بھی ہندوستان سرکار نے انہیں کشمیر کے معاملات پر2001ءمیں وزیراعظم ہندوستان کا مشیر مقرر کردیا جہاں انہوں نے2004ءتک اپنے مشوروں سے ہندوستان سرکار کو نوازتے رہے۔یہ کتاب جاسوس حلقوں میں ایک انوکھی کتاب سمجھی جارہی ہے۔کیونکہ جیسے اس کتاب کے نام سے ظاہر ہوتا ہے یہ دو زبردست مخالف جاسوس اداروں جن کے اپنے اپنے ممالک کی دشمنی کئی برسوں پر معیطہ ہے۔کے سربراہ کا ایک ڈائیلاگ ہے یا ڈبیٹ ہے جس کی مددگار(MODERTOR)ایک مشہور ہندوستانی مصنف، اخبار نویس ارو مدیر ادیتیاسنہا ہیں۔جنرل اسد درانی پاکستان کے کوئی پہلے ریٹائرڈ جنرل نہیں جنہوں نے کتاب لکھی ہو اس سے پہلے بھی کئی پاکستانی جنرلز تھے۔بشمول جنرل ایوب، جنرل اکبر خان، جنرل کے ایم عارف اور جنرل مشرف اور تو اور جنرل درانی کے سابق باس جنرل اسلم بیگ تک نے دو کتابیں لکھ ڈالیں۔مطلب کہ ریٹائرڈ جنرلوں کی کتابیں رکھنا دنیا بھر میں ایک معمول کسی بات ہے فرق صرف اتنا ہے کہ یہ کتاب کشمیر جیسے حساس مضمون پر دونوں ممالک کے بہترین جاسوس افسران کے بیباک مکالمہ پر مشتمل ہے۔جسے ایک کہنے مشق بھارتی صحافی نے اپنے چبھتے ہوئے سوالوں سے اور دو بڑے جاسوسوں کے مبہم جوابات کی وضاحت کرتے ہو اس کتاب کے صفحات کی زینت بنایا ہے۔اس کتاب میں کشمیر کے علاوہ افغانستان، بمبئی حملہ، ڈونلڈ ٹرمپ، اوسامہ بن لادن اور کلبوشن یادیو جیسے موصعات پر بھی بات چیت ہوئی ہے۔
اس کتاب کی خاص بات ہے کہ ہندوستانی چیف جلوس دولت نے آئی ایس آئی کو ایک بہتر جلوسی ادارہ تسلیم کیا ہے۔جس کے جواب میں جنرل درانی نے اپنی وسیع القلبی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ(RAW)بھی مقابلے میں ایک مضبوط اور اگر ہم سے بہتر نہیں تو کمتر بھی نہیں ہے۔اس ادارے(RAW)کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ اس جاسوس ماہرین کی فراوانی ہے جبکہ ہمارے ادارے میں فوجیوں کی اکثریت ہے جنرل درانی کے دو کھلے اعترافات ایسے ہیں جنے فوجی اسٹیبلشمنٹ میں ناراضگی پیدا کی ہے اور وہ ہیں(i)اوسامہ پر حملہ میں فوج نے امریکی سیلSEALSکی رہنمائی اور مدد کی تھی۔جسے کبھی منظر عام پر نہیں آنے دیا گیا۔اور کشمیر میں جنرل درانی نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ پاکستان کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں حاصل ہوئی۔جبکہ درحقیقت کشمیر کے مسئلہ کو پاکستان یا ہندوستان کی فوج مستقل طور پر حل ہی نہیں کرناچاہتیں کیونکہ جب تک کشمیر کا مسئلہ چلتا رہےگا۔ہمارے جرنیلوں(پاکتانی وہندوستانی)کے چولہے جلتے رہینگے۔انکے بچے امریکہ اور یورپ میں مہنگی تعلیم حاصل کرتے رہینگے۔لمبی چوڑی فوج ظفر موج کی جواز بھی قائم بھی رہے گا۔ورنہ دو ایٹمی قوت رکھنے والے ممالک کے درمیان جنگ ہونے کا امکان پانچ فیصد بھی نہیں لیکن جب تک کشمیر جلتا رہے گا۔انکے چولہے جلتے رہیں گے ،کاروبار چمکتے رہیں گے۔عوام پستی رہے گی، ملک کی ترقی اس لئے ممکن نہیں کے تعلیم کو ترجیح دینے کی بجائے مہنگے ہتھیاروں کی خریداری کو ترجیح دیئے جانے پر اصرار کیا جاتا رہے گا۔فوج اور سیاستدان ایک دوسرے کو قصور وار قرار دیئے جاتے رہیں گے۔میرشکیل الرحمانوں کو جیلوں میں ڈال جاتا رہےگا۔کریمہ بلوچ کو قتل کروا کر دلوں کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوگی۔اس کے نماز جنازہ میں شرکت آنے والوں کو کرفیو لگا کر داخلہ بند کر دیا جائےگا۔کب تک سچ کا راستہ روک پاﺅ گے؟کب تک قتل کرتے رہو گے، آوازوں کو؟ضمیر جب تک زندہ ہے لوگ سرمد کی طرح اپنے سر ہتھیلیوں پر سجائے پھر لینگے تم کتنے قتل کرو گے؟آسمان والا کب تک خاموش رہے گا۔
٭٭٭٭