پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com
جیسے کہ وزیراعظم عمران خان نے کسی صحافی کو بتایا کہ جہانگیر ترین نے انہیں دھمکی آمیز پیغام بھجوایا تھا کہ آپ نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا۔اب اس کے جواب میں جہانگیر ترین، بیٹے اور گھر کی خواتین کو عدالتوں سے ضمانتیں کروانی پڑ رہی ہیں۔ویسے تو جہانگیر ترین نے پاکستان کی عوام کے ساتھ جو کیا اس کے بعد ان سے کیسے بھی ہمدردی نہیں ہوگی لیکن گھر کی خواتین کو ان معاملات میں گھسیٹنا، خصوصاً اگر وہ گھریلو خواتین ہیں۔ہرگز مناسب نہیں اب چینی مافیا مزید سرگرم ہوگئی ہے۔گزشتہ کابینہ اجلاس میں ہندوستان سے چینی کی درآمد کی بات کی گئی تھی لیکن عمران خان نے اس تجویز کو مسترد کردیا۔جہانگیر ترین کے ساتھ تعلقات کو اس نہج پر پہنچا دیا گیا ہے۔جہاں سے واپسی کی کوئی امید نہیں رہتی۔اب بجا بطور پر عمران خان کو خسرو بختیار اور عمر ایوب جو دونوں اس وقت کابینہ کی اہم وزارتوں کو سنبھال رہے ہیں۔اسکی فکر لاحق ہوگئی ہے یہ دونوں جہانگیر ترین کے قریب ترین لوگ ہیں۔اور اگر یہ کہا جائے کہ انہیں وزارتیں دلوانے میں بھی جہانگیر ترین کا بڑا کردار ہے تو غلط نہیں ہوگا۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ واحد لوگ نہیں تحریک انصاف کی حکومت میں ترین گروپ کے اچھے خاصے لوگ موجود ہیں۔کچھ ببانگ دھل اور کچھ درپردہ!اب عمران خان کس کس کو چن کر اپنی حکومت سے فارغ کرسکیں گے۔دوسری طرف سیانے کہتے تھے کہ جس طرح ایک بڑا دشمن دوست بن جائے تو وہ اچھا دوست بن کر رہتا ہے۔اسی طرح اگر ایک قریبی دوست دشمن بن جائے تو اس سے خطرناک دشمن کوئی نہیں ہوسکتا ہے۔جہانگیر ترین ترین ہونے کے علاوہ سرائیکی بیلٹ کے زمیندار بھی ہیں جو دشمنیاں پالتے ہیں۔اور کبھی بھولتے نہیں ہیں ترین کے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ وہ پاکستان کے چند امیر ترین لوگوں میں شامل ہے۔تو بھی غلط نہیں ہوگا۔اگر وہ جہاز اور ذرائع جن کی مدد سے انہوں نے عمران خان کو وزیراعظم ہاﺅس تک پہنچایا ہے وہ انکے مخالفین کیلئے وقف کردیں۔تو موجودہ حکومت کیلئے لمحہ فکریہ بن سکتیں ہیں۔جہانگیر ترین ایک بڑی مافیا کے سربراہ ہونے کے علاوہ پنجاب اور سرحد کے بااثر خاندانوں میں ریاست داریاں بھی رکھتے ہیں۔بنیادی طور پر اب یہ سارا گند عمران خان کو اپنی پلکوں سے صاف کرنا پڑیگا۔اگر یہ تمام معلومات پہلے سے حاصل کرلیتے تو نیازی خان کو یہ دن نہیں دیکھنے پڑتے۔آپ سونے کے سمگلر کو اپنا ساتھی بنا سکتے ہیں۔مجبوری میں منی لانڈرز کو بھی برداشت کرلینگے۔لیکن چینی آٹا کے ذخیرہ اندوز، سمگلر اور ان بنیادی اشیاءکی قیمتوں کی مصنوعی اضافے کے ذمہ داروں کے ساتھ آپکی دوستی بطور وزیراعظم ذلت ورسوائی کے علاوہ آپ کو کچھ نہیں دے پائیگی۔ بجا طور پر عمران خان کا احسن اقدام ہے۔کاش یہ سب کچھ آپ آتے ہی کرلیتے تو معاملات خراب نہیں ہوتے لیکن پھر بھی یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ دیر آید، درست آید، گلہ تو یہ بھی جائز ہوگا کہ بہت دیکھ کر مہرباں آتے آتے۔عوام کی بنیادی اجزاءخوراک کی قیمتوں میں استعدر اضافہ کے ذمہ داران کیلئے کوئی معافی کی گنجائش نہیں ہوسکتی اور ایسے ملزمان کے ساتھ بدترین سلوک نہ صرف جائز ہے بلکہ کم ہے کیونکہ وہ ملک وقوم کے بدترین دشمن اور غدار ہیں۔لیکن عوام کی آنکھیں بھی کھلنی چاہئیں کہ جنرل ایوب خان کے قریبی عزیز اور جنرل اختر عبدالرحمان کے بھانجے بھتیجے جہانگیر ترین کو اب تک کی پرورش کس نے کی ہے۔یہ اسٹیبلشمنٹ کے وہ چہیتے ہیں جن سے ماضی میں بھی حکومتیں بنوانے اور گرانے کا کام لیا جاتا رہا ہے۔عوام جو آج چینی اور آٹے کیلئے پریشان ہے ان اشیاءکی قلت کے کون ذمہ دار ہیں۔اور ان سانپوں کو کون پال رہا ہے کون انہیں مشکل حالات میں سہارا دیکر نکال لیتا ہے اور پھر جھاڑ پونچھ کہ اگلے معرکہ کے لئے کھڑا کردیتا ہے۔سیاستدان تو سارے چور اُچکے ہیںلیکن کبھی اپنے گریبانوں میں جھانک کے دیکھو تو یہی سوال اٹھتا ہے کہ آپ کونسے دودھ کے دھلے ہو آپ یہی اس ساری تباہی کے ذمہ دار ہو!!
عمران خان وزارت عظمیٰ سے پہلے کہتے کہتے تھکتے نہیں تھے کہ میں ایسی ٹیم لا رہی ہوں۔جو نوے دن میں پاکستان کی کایا بدل ڈالے گی۔اب وہ کہہ رہے ہیں کہ تھا جن پہ پتے ہوا دینے لگے۔عمران خان آپ نے جو چور اچکبے اپنے اردگرد اکٹھے کئے ہوئے تھے یہی آپکو ڈبو دینگے۔کیوں کہ آپ ناکام ہوئے اچھی ٹیم منتخب کرنے میں اور اس کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ آگے بھی آپ غلط فیصلے نہیں کریں گے۔اور بدقسمتی سے غلطی کی کوئی گنجائش بھی نہیں رہتی۔آج اپنے اپنے غلط فیصلوں سے پاکستان جو ایک زرعی ملک سے جہاں پر آٹا وگندم کی کبھی کبھی نہیں ہوئی اسمگل ہو کر دوسرے ممالک جاتی تھی چینی کے اضافی اسٹاک سرکاری گوداموں میں ڈھیر بروقت موجود رہتے تھے۔وہاں پر آج آٹا چینی ہندوستان سے خریدنے کی بات ہو رہی ہے۔آپ نے غریبوں کو گھر تو نہیں بنا کر دیئے، ملازمتیں تو نہیں دیں ،آپ نے پاکستان کی عوام کو آٹے ،چینی سے بھی محروم کردیا ،انتہائی شرم کا مقام ہے۔
٭٭٭