آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اور ملکی معاشی مستقبل‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم ‘‘میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین معاشیات اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر قیس اسلم
(ماہر معاشیات )
ملک میں دو معاشی نظام ہیں، ایک امیر کیلئے اور دوسرا غریب کیلئے۔ یہاں20 فیصد امراء موجود ہیں جن میں سے 7 فیصد اشرافیہ ہے اور ہماری تمام پالیسیاں ان کے گرد گھومتی ہیں اور ان کے مفادات کیلئے ہی کام کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم انہیں مافیاز کا نام دیتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں۔ ملک میں 80 فیصد افراد 1 ہزار روپے روزانہ سے بھی کم کماتے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے اور نہ ہی ان کی حالت بہتر کرنے کیلئے کوئی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ ہماری 7 فیصد اشرافیہ غریب کیلئے پالیسی سازی میں بھی فائدہ اٹھاتی ہے۔
ود ہولڈنگ ٹیکس، آٹا، چینی، پٹرول و دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کا فائدہ بھی انہی کو ہوتا ہے۔ موجودہ دور حکومت میں ادویات کی قیمتوں میں 200 فیصد اضافہ کر دیا گیا، اس کا فائدہ بھی انہی کو ہوا جبکہ عام آدمی پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا۔ زمین، لیبر، سرمایہ اور کاروباری معیشت اور ملکی ترقی کیلئے اہم ہوتے ہیں۔ ہم نے اپنی زراعت کو تباہ کر دیا۔
سونا اگلتی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز بنا دی گئی، کسانوں کو زمین بیچنے پر مجبور کیا گیا، ان کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا، چھوٹے کسانوں کو بھکاری اور مزدور بنا دیا گیا۔بدقسمتی سے ہم لوگوں کو غربت سے نہیں نکال رہے بلکہ ان کا استحصال کر رہے ہیں۔ زراعت میں کوئی ریسرچ نہیں ہورہی، کوئی نیا بیج بنایا اورنہ ہی اس شعبے کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا گیا۔ اس کے علاوہ پانی کا مسئلہ بھی سنگین ہورہا ہے جس سے نمٹنے کی کوئی تیاری نہیں ہے۔
ڈیم بنائے گئے اور نہ ہی پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے کوئی اور اقدامات کیے گئے بلکہ ہم نے تو دریاؤں کو بھی آلودہ کر دیا۔ہماری زمین کی پیداواری صلاحیت کم ہورہی ہے جبکہ ہماری لیبر فورس بھی جدید تقاضوں کے مطابق قابل نہیں ہے۔ہمارے مسائل سنگین ہیں جن کے حل کیلئے بہتر پالیسی اور سٹرکچر بنانا ہوگا۔
ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے مگر ہم آئی ایم ایف سے پیسے مانگ رہے ہیں۔ سعودی سعودی عرب اور ایران اپنی ایک ایک پراڈکٹ سے G20 ممالک میں شامل ہوگئے، اگر ہم ان کی طرز پر کسی ایک پراڈکٹ کو ہی بہتر بنا لیں تو معیشت مستحکم ہوسکتی ہے۔ حکومت نے تعمیراتی شعبے، سیمنٹ انڈسٹری کو پیکیج دیا جس پر تحفظات ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس میں بھی من پسند لوگوں کو نوازنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن اگر ایسا نہیں ہے اور یہ پیکیج ملکی معیشت کیلئے اتنا ہی اچھا ہے جتنا بتایا جا رہا ہے تو پھر بلاتفریق تمام شعبوں کو یہ پیکیج دیا جائے اور سب کو ہی بلیک منی پر چھوٹ دی جائے۔
اس وقت یہ ضرورت ہے کہ نوجوانوں کو عالمی معیار کے مطابق تربیت دی جائے اور ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جس سے ملک و قوم کا فائدہ ہو۔ہم نے آئی ایم ایف سے 6 بلین ڈالرحاصل کرنے کیلئے اسی کے کہنے پر ڈالر کی قیمت کو مارکیٹ فری کر دیا جس سے ملک کو 27 بلین ڈالر کا نقصان ہوا جو حیران کن ہے۔
اس نقصان کے باوجود آئی ایم ایف نے ہمیں صرف ایک بلین ڈالر دیا۔ اب آئی ایم ایف 5 بلین ڈالر پر مانا ہے جس کے بدلے میں بجلی، گیس، پٹرول مہنگا ہوگا اوراداروں کی نجکاری ہوگی۔ اوورسیز پاکستانیوں نے 488 ملین بھیجے، 2 بلین ماہانہ کی ترسیلات زر ہیں، سوال یہ ہے کہ جب پاکستانی کمانے اور پیسہ دینے کو تیار ہیں تو پھر آئی ایم ایف سے رجوع کیوں کیا جاتا ہے؟افسوس ہے کہ ہماری غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک و قوم کا نقصان ہورہا ہے،معاشی بہتری کیلئے ادارہ جاتی اصلاحات لائی جائیں، سکلڈ لیبر تیار کی جائے، ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت کی جائے، پائیدار ترقی کے اہداف پر کام کیا جائے اور مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی سازی کی جائے۔ بہترین لیبر تیار کرنے کیلئے ووکیشنل ٹریننگ کو سکول کے نصاب کا لازمی حصہ بنایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں صنعتی زونز بنا کر چھوٹی صنعتوں کو یہ بتایا جائے کہ کس علاقے میں کون سی صنعت لگنی ہے، کس ملک کی ڈیمانڈ کیا ہے اور کسے کونسی پراڈکٹ چاہئیں۔ ملکی معیشت کی بحالی اور صنعت کے فروغ کیلئے انڈسٹری کو 24 گھنٹے پروڈکشن کی اجازت دی جائے۔
منظور الحق ملک
(سابق نائب صدر ایف پی سی سی آئی )
بدقسمتی سے ہم نے ہمیشہ غلط اعداد و شمار سے معیشت چلانے کی کوشش کی اور معاشی انحصاری کیلئے کوئی کام نہیں کیا۔ معیشت کو چلانے کیلئے پہلے انڈسٹری سے ایڈوانس ٹیکس لیا جاتا ہے اور بعد میں پیکیج دے دیا جاتا ہے، یہ ماڈل کسی بھی طور درست نہیں ہے۔
ایز آف ڈوئنگ بزنس پر حقیقی معنوں میں کام نہیں ہوسکا جس کی وجہ سے آج بھی بزنس کمیونٹی کو مسائل کا سامنا ہے۔ میرے نزدیک موجودہ معاشی حالات میں ہمیں خودانحصاری کی جانب بڑھنا چاہیے۔ اگر ہم بہتر پالیسی بناتے تو آئی ایم ایف کے بجائے عالمی بینک یا ایشئین ڈویلپمنٹ بینک سے رجوع کرتے جہاں سے ہمیں سستا قرض ملتا اور اتنی پابندیاں بھی نہ ہوتی۔آئی ایم ایف نے 1.39 بلین کا ریلیف فنڈ دیا ، سخت شرائط رکھی اور ہم نے کہا کہ بجلی مہنگی کریں گے، ہم نے بجلی چوری پر توجہ دی اور نہ ہی سپلائی لائنز کو بہتر کرنے پر توجہ دی گئی۔
سب ہی اصلاحات کا وعدہ کرتے ہیں مگر اس کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔ ہمارے خراب حالات حادثاتی طور پر یا کسی ناکامی کی وجہ سے نہیں ہیں بلکہ دانستہ طور پر ایسے حالات پیدا کیے گئے ہیں تاکہ ملک معاشری طور پر خود انحصار نہ ہو، لوگ خوشحال نہ ہوں اور بزنس کمیونٹی بھی پھیلنے کے بجائے سکڑتی رہے۔ بیوروکریسی کو دیے جانے والے بے جا اختیارات نے بھی نظام کو تباہ کیا۔
بیوروکریسی کی ایسی تربیت ہی نہیں کی گئی جس سے وہ ملک کو خودانحصاری کی جانب لے کر چلے۔ یہ باعث افسوس ہے کہ ماضی میں جو ادارے قومیائے گئے وہ سب کے سب ملک پر بوجھ بن گئے جو بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ان اداروں کو سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔
ان کے ملازمین کے ذریعے سیاست کی گئی، اداروں پر اضافی ملازمین کا بوجھ ڈالا گیا جس سے تباہی ہوئی۔ اب ملازمین کو نکالا جا رہا ہے جو سراپا احتجاج ہیں۔ اگر بہتر پالیسی بنا کر ان ملازمین کی کپیسٹی بلڈنگ کی جائے تو وہ خود کسی بہتر جگہ چلے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ انڈسٹری کو فروغ دیا جائے تاکہ ان کیلئے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں۔ انڈسٹری کیلئے ایڈوانس ٹیکس، گیس، بجلی، تیل و دیگر اشیاء کی مہنگائی بڑا مسئلہ ہے لہٰذا ایڈوانس ٹیکس ختم کیا جائے اور سیلز ٹیکس کوریٹیل پر لے جایا جائے اس سے صنعت کا پہیہ چلے گا اور ملک کو فائدہ ہوگا۔ سمگلنگ بھی ملک میں ایک بڑا مسئلہ ہے مگر اس پر قابو پانے میں کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہے۔ سمگلنگ کے راستے بدلے ہیں، کچھ مافیاز کو چھوٹ ہے جبکہ کچھ کو روک دیا گیا ۔
اگر یہاں پر انڈسٹری کی پیداواری لاگت کم کرنے کے اقدامات کیے جائیں تو 95 فیصد سمگلنگ کا خاتمہ ہوجائے گا۔ امیر اور غریب میں فرق بڑھتا جارہا ہے جو آگے چل کر ایک بہت بڑا چیلنج بن جائے گا۔ اگر ہمیں مزید مسائل سے بچنا ہے تو گڈ گورننس پر توجہ دینا ہوگی۔اس کے لیے اداراجاتی اصلاحات لانا ہونگی، لوگوں کی پروفیشنل ڈویلپمنٹ پر کام کرنا ہوگا اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی بنانا ہوگی۔ اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ پالیسی سازی کیلئے متعلقہ سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے۔اس وقت ضرورت ہے کہ ایز آف ڈوئنگ بزنس پر کام کیا جائے ۔
رخسانہ ظفر
(صدر ویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری لاہور )
ملک کے مسائل سنگین ہیں لہٰذا جب تک ہم اپنے بنیادی مسائل کا تعین نہیں کریں گے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ آئی ایم ایف پیکیج کے برے اثرات عوام پر پڑتے ہیں۔ توانائی اور تیل کی قیمتوں ،ٹیکس میں اضافہ اورروپے کی قدر میں کمی جیسے معاملات معیشت کے لیے خطرناک ہوتے ہیں مگر ہمیں مجبوراََ آئی ایم ایف کی شرائط ماننا پڑتی ہیں۔ دنیا بھر میں خوراک، صحت اور تعلیم ریاستوں کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں یہ معاملات نجی شعبہ چلا رہا ہے اور لوگوں کو اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اصلاحات پر توجہ نہیں دی گئی۔ پہلے ملک میں توانائی کا بحران تھا، پھر فیول کرائسس پیدا ہوا اور اب ہر تھوڑے عرصے بعد خوراک کا بحران پیدا ہوجاتا ہے۔
کبھی آٹا، گندم، چینی، ٹماٹر اور کبھی کسی اور شے کی قلت کا پیدا ہونا ایک زرعی ملک کیلئے باعث افسوس ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم آج تک کوئی زرعی پالیسی ہی نہیں بناسکے جس سے زراعت کو فروغ دیا جاسکے۔ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت 1.2 ارب کی آبادی کو خوراک دے رہا ہے۔ اس کی ویلیو ایڈڈ زراعت ہے اور دنیا بھر میں وہاں سے پراڈکٹس جارہی ہیں جس سے اس کی معیشت کو بھی فائدہ ہورہا ہے۔ ہمارے ہاں تو آج تک ’کراپ زوننگ‘ ہی نہیں ہوسکی کہ کہاں کونسی فصل اگانی ہے۔ صحت کی بات کی جائے تو ہمارے ہاں صحت کی سہولیات بھی انتہائی کم ہیں۔
لہٰذا تحصیل کی سطح پر لوگوں کو صحت کی لازمی سہولیات دی جائے، میڈکل کالجز بنائے جائیں تاکہ عام آدمی کی صحت بہتر ہو، علاج پر خرچ کم ہو ، قوم صحت مند ہوجائے جس سے یقینا صحت پر اخراجات بتدریج کم ہوجائیں گے اور معیشت کو اس سے استحکام ملے گا۔ موجودہ حکومت سے ہمیں بہت زیادہ امیدیں وابستہ تھی۔ ابھی بھی ہمیں امید ہے کہ حکومت ہماری توقعات پر پورا اترے گی۔ کاروبار میں سہولت کاری کے حوالے سے حکومت نے بعض اچھے اقدامات اٹھائے ہیں۔ خواتین کو کاروبار 10 لاکھ سے 50 لاکھ تک قرضے دیے گئے جو خوش آئند ہے۔
ہمارا مطالبہ ہے اس سال بھی یہ سکیم دوبارہ بحال کی جائے۔ وزیراعظم عمران خان سنجیدہ ہیں، وہ ایمانداری سے کام کر رہے ہیں مگر ان کے ارد گرد موجود لوگ مسائل کا سبب ہیں۔وہ انہیں درست رپورٹس نہیں دے رہے جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں، اس پر توجہ دینا ہوگی۔ حکومت کی جانب سے پری بجٹ مشاورت کی جارہی ہے، ہمارے ساتھ بھی مشاورت ہوئی ہے جس کے بعد سالانہ ڈویلپمنٹ پلان بنایا جارہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ معاشی استحکام کیلئے ہمیں معاشی خود مختاری پر کام کرنا ہوگا۔ اس کے لیے صنعت و زراعت پر توجہ د ی جائے، زراعت کے شعبے میں ویلیو ایڈیشن پر کام کیا جائے ، قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھایا جائے اور زرعی زمین پر رہائشی کالونیوں کی کی تعمیر پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک آئی ایم ایف سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرتے تب تک ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ معاشی ترقی کیلئے شارٹ اینڈ لانگ ٹرم پالیسیاں بنائی جائیں اور پالیسی سازی میں متعلقہ سٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جائے۔ چھوٹے دوکانداروں پر سالانہ ٹیکس عائد کیا جائے، ان سے فکس ٹیکس لینے سے ریونیو میں اضافہ ہوگا۔