حیدر علی
جی ہاں! میں بیوی والا ہوں میری بیوی میری ملکیت ہے، ایک ایسی ملکیت جس پر مجھے کوئی ٹیکس نہیں دینا پڑتا ہے، ہمارا مکان بھی میری ملکیت ہے، اُس پر مجھے بھاری ٹیکس دینا پڑتا ہے، مثلا”پراپرٹی ٹیکس، اسکول ٹیکس، میونسپلٹی ٹیکس حتی کہ پانی ٹیکس خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ بیوی پر کوئی ٹیکس نہیں ہے،یہی وجہ ہے کہ بیویوں کے ہزار نخرے شوہروں کو برداشت کرنے پڑتے ہیں، اپنی ساری سخت محنت سے کمائی ہوئی تنخواہیں لاکر بیویوں کے ہاتھوں میں تھما دینی پڑتیں ہیں، بیویاں اُسے مسکراتے ہوے دبوچ لیتی ہیں، اُنہیں یہ بھی توفیق نہیں ہوتی کہ وہ شکریہ کے دو الفاظ بھی ادا کریں، یہ بھی کہہ سکیں کہ اے میرے سرتاج! آپ جس طرح کی محنت کرکے گھر کا خرچ برداشت کرتے ہیں اُس کا مجھے پورا پورا احساس ہے،آپ جس طرح صبح اٹھ کر دفتر جانے کےلئے تیار ہوجاتے ہیں اور خود ہی ناشتہ اور چائے کی زہر ماری کر لیتے ہیں اور میں سوتی رہتی ہوں، اِس پر میں تہہ دِل سے شرمندہ ہوں لیکن بیویاں ایسی اعلی ظرفی کا مظاہرہ ہرگز نہیں کرتیں، اُن کا رویہ تو ایسا ہوتا ہے جیسے وہ کہہ رہیں ہوں کہ بھاڑ میں جائے تمہاری تنخواہ اور تمہارا گھرتاہم میں دوسرے شوہروں کے احساسات کی ترجمانی کیوں کروں، کیوں نہ میں صرف اپنی بیوی کو نمونہ بناکر پیش کروں، کیوں نہ میں یہ کہوں کہ محترمہ ہر ہفتے ایک کثیر رقم گروسری کی خریداری پر خرچ کرتیں ہیں لیکن اُن کی خریدی ہوئی کسی بھی اشیاءخوردونوش کی لذت آشنائی سے میں لطف اندوذ نہیں ہوسکتا، اب آپ ٹی بیگ کی ہی مثال لیجئے ، میں منٹوں ایک نہیں دو بیگ کو چائے کی پیالی میں ڈبو کر اُسے اپ اینڈ ڈا¶ن کرتا رہتا ہوں لیکن گرم پانی چائے کی رنگت یعنی سیاہ ہونے کا نام نہیں لیتا میں کئی مرتبہ اپنی بیگم کو اِس کا تذکرہ کرچکا ہوں لیکن اُنہیں کیا پتا کہ ہم پاکستانی کس طرح گھنٹوں چائے کو گھونٹ کر اُسے زبردستی کشمیری یا بلوچی پتی بنانے کی کوشش کرتے ہیںلیکن اُنہیں اِس کا کیا پتا ؟ وہ تو سرے سے چائے پیتی ہی نہیں ہیں یا صرف اُس وقت پیتی ہیں جب اُنکے سر میں درد ہوتا ہے، میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ چائے کی توہین ہے، میں تو ایسے شخص کو اپنے گھر کی ڈیوڑھی پر قدم رکھنے کی اجازت بھی نہیں دے سکتا ہوں جو چائے نہ پیتا ہو چائے نہ صرف ہماری تہذیب و ثقافت کا ایک حصہ ہے، بلکہ بذات خود ایک تہذیب و ثقافت ہےہماری بیگم کا موقف ہے کہ چائے کو وجہ نزاع بنانے کی کوئی ضرورت نہیں،لیکن صرف چائے کیا ڈبل روٹی کا بھی مسئلہ ہے، ہر ہفتے وہ کسی نئے برانڈ کی ڈبل روٹی خرید کر لے آتی ہیں، اِسلئے مجھے کبھی ایک ٹوسٹ ا ور کبھی دوکھانے پڑتیں ہیں، اور کبھی ایک ہی ٹوسٹ کے دو حصے کرنے پڑتے ہیں لہٰذا صبح ہی صبح مجھے ڈبل روٹی دیکھ کر شش و پنج میں مبتلا ہونا پڑتا ہے کہ یہ آٹے کی ہے یا باجرا کی مجھے اچھی طرح علم ہے کہ ڈبل روٹی بنانے والی کمپنیاں تا ہنوز وہیں ہیں جو آج سے 40 سال قبل ہوا کرتیں تھیں لیکن میری بیگم کو نئی ڈبل روٹی بنانے والی کمپنی سے بے پناہ ہمدردی ہے، اُن کیلئے یہ کوئی بڑی بات نہیں کہ اُن کے شوہر ڈبل روٹی کھارہے ہیں یا اینٹ کا چورن،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری بیویاں ہمارے تابعدار ہوتیں ہیں یا ہم اُن کے غلام؟ ہماری زندگی کا کون سا پہلو ہے جس میں ہماری بیویاں مداخلت نہ کرتیں ہوں، اب میں بارہا اپنی بیگم سے اصرار کرتا ہوں کہ وہ بیف اسٹیک بنائیں جو اُنہوں نے کافی دِن سے نہیں بنایا ہے لیکن وہی رات کے کھانے میں پالک کا ساگ ، گوبی آلو ہمارے مقدر کا لکھا بنا ہوا ہے جیسے ہم ہندو دھرم کے پیروکار ہوں، ہماری بیگم کا کہنا ہے کہ سبزیاں کھانے سے بلڈ پریشر قابو میں رہتا ہے، ویسے بیویوں کی زندگی کی یہ آخری خواہش ہوتی ہے کہ شوہر حضرات اُن کے ہاتھ کے بنائے ہوئے کھانے کی تعریف کریں اگر کھانا اچھا بنا ہوا ہوتا ہے تو وہ ضرور لائق تعریف ہیں لیکن اگر کھانے میں نمک اتنا زیادہ ہو جس سے عندیہ یہ ملتا ہو کہ بیوی کی پرورش کسی شہری علاقے کے بجائے نمک کے کان میں ہوئی ہو، یا کھانے میں نمک ہی نہ ڈالا ہویا گوشت کو اتنا چبانا پڑتا ہو کہ دانت نکل پڑ یں ، یا روٹی جلا دی ہو تو پھر منھ لٹکائے رکھنے سے کیا فائدہ؟لیکن شوہر حضرات کو بیویوں کی اِن خامیوں کی نشاندہی کرنے کی توفیق کیا ہمت بھی نہیں ہوتی، اور اُنہیں کھانا نگلنا ہی پڑتا ہے۔
ایک عام قیاس یہ ہے کہ بیویاں شوہروں کی بہت خدمت کرتیں ہیں، وہ اُن کے کپڑے کی لانڈری کرتیں ہیں لیکن میں تو سردی کا موزا جو اُنہیں لانڈری کیلئے دیتا ہوں ، وہ خوشی خوشی اُسے موسم گرما میں واپس کرتیں ہیں، میں اُنہیں دیکھ کر سوچتا ہوں کہ اے کاش یہ موزے مجھے سردی کے دوران مل جاتے تو مجھے بار بار خریدنا نہ پڑتاصرف موزے کی کیا بات ، کپڑے کے معاملے میں بھی بیویوں کی یہی خواہشات ہوتیں ہیں کہ اُن کے شوہر حضرات صد فیصد اُن کی مرضی سے زیب تن کیا کریں، مثلا”سردی میں بھی بنیائن پہنا کریں۔ میں نے تو ایک مرتبہ اپنی مرضی کی ایک جین خرید کر لے آئی تھی، جس کا پائینچا ذرا تنگ تھا، بیگم نے فورا”اُس پر ناک بھوں چڑھانا شروع کردیا، اُن کی خواہش تھی کہ جین کا پائینچا بھی شرارے کی طرح وسیع العرض ہو اور پھر گھر میں کس کے رشتہ دار تشریف لاکر طویل المدت قیام کر سکتے ہیں، شوہر کے بھائی یا والدین یا بیگم کی بہنیں یا پھوپھی یا خالہ، یہ ایک متنازع سوال ہے، کیا آپ کی بیگم یہ برداشت کر سکتیں ہیں کہ آپ اُن کے رشتہ دار کو ریڈ کارڈ سے تواضع کر دیں ، اور یہ کہیں کہ اِس سردی کے موسم میں وہ خود اپنے گھر میں ہی رہیں تو زیادہ بہتر ہے، کیا آپ میں اتنی ہمت ہے؟