شمیم سیّد،بیوروچیف ہیوسٹن
پاکستان سپر لیگ کا چھٹا سیزن جو بہت ہی عمدہ طریقہ سے کراچی میں کھیلا جا رہا تھا باوجود اس کے کہ کورونا وائرس پر قابو بھی نہیں پایا گیا تھا باہر کے ممالک سے جو کرکٹر کھیلنے آرہے تھے ان کو بھی خراج تحسین پیش کرنا چاہیے انہوں نے بھی اپنی زندگی کا رسک لیا تھا بہر حال ان کو اس کی بھاری قیمت بھی ادا کی گئی لیکن صرف پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا زندگی ہو تو بہت پیسہ کمایا جا سکتا ہے۔ ساری دنیا کی نظریں پاکستان کی کرکٹ پر لگی ہوئی تھیں خاص طور پر ہمارا ہمسایہ ملک جو پاکستان کی کرکٹ کو ہر طرح سے برباد کرنا چاہتا ہے اس معاملہ میں بہت آگے آگے رہتا ہے وہاں کی کرکٹ کے کھلاڑی تو چاہتے ہیں کہ پاکستان کےساتھ کرکٹ کھیلنی چاہیے لیکن وہاں کی متعصب حکومت نہیں چاہتی کہ دونوں ممالک میں کرکٹ کھیلی جائے، ظاہر ہے کرکٹ کھیلی جائیگی تو تعلقات بڑھیں گے اور وہ نہیں چاہتی کہ پاکستان سے تعلقات بہتر بنائے جائیں جبکہ سب سے زیادہ کراﺅڈ پاکستان اور انڈیا کے میچ میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے چاہے وہ ایشیاءکپ ہو یا ورلڈکپ ، پانچواں پی ایس ایل بھی آخری مرحلے میں کورونا کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا تھا ارو پھر بعد میں فائنل کھیلا گیا۔ ہماری پی ایس ایل میں ہمیں نئے ٹیلنٹ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ باہر کے کھلاڑی تو ایک خانہ پُوری ہوتی ہے زیادہ تر پرفارم تو لوکل کھلاڑی ہی کرتے ہیں ہمارا بورڈ اور کرکٹ ٹیموں کے لاکھوں ڈالر اس لیگ میں لگائے جاتے ہیں انڈیا میں بھی آئی پی ایل ہوئی اور تمام میچز ہوئے وہاں کوئی پرابلم نہیں ہوئی کیا وجہ ہے کہ ہمارے پاکستان میں کورونا اتنا نہیں پھیلا جتنا انڈیا میں پھیلا اور وہاں لوگوں کی اموات بھی زیادہ ہوئیں۔ ہماری ٹیم کےساتھ ہی مشکلات کیوں ہوتی ہیں۔ اس میں ہماری ناقص پالیسی ہے یا ہم اپنے آپ کو ہر چیز سے بالاتر سمجھتے ہیں سب سے پہلا کورونا کا شکار آسٹریلیا کا فواد احمد ہوا وہ جس ہوٹل میں ٹھہرا تھا وہاں ُر تمام ٹیمیں ٹھہری ہوئی تھیں کوئی پابندی نہیں تھی جس کا دل چاہتا تھا وہ گُھوم پھر کر آجاتا تھا جیسے پشاور زلمی کے کپتان وہاب ریاض اور امام الحق یہ لوگ کھلے عام گھوم پھر رہے تھے ہمارے پی سی بی کے ارکان کیا کر رہے تھے؟ ان پر جرمانے کیوں نہیں لگائے گئے اس میں ہمارے بورڈ کی کوتاہی ہے اور ہمارے کرکٹ ٹیموں کے مالکان بھی دھمکیاں دے رہے تھے کہ ہم ٹیم نہیں لائینگے جہاں ایسے لوگ ہوں تو ایسا ہی ہونا تھا کچھ تجزیہ کار یہ بھی بتا رہے ہیں کیونکہ خرابی¿ موسم کے باعث تمام میچ کراچی منتقل ہو رہے تھے اس لیے ایک گروپ یہ چاہ رہ اتھا کہ لاہور میں بھی میچ ہوں کیونکہ کراچی اور لاہور میں ہمیشہ سے مقابلہ رہا ہے جبکہ کراچی کی ٹیم میں کراچی کا تو کوئی بھی لڑکا نہیں ہے زیادہ تر پختون اور پنجابی ہیں اور آنے والا وقت شاید ایسا آجائے کہ پوری ٹیم میں پختون ہی کھیل رہے ہوں کیونکہ جو ٹیلنٹ وہاں سے آرہا ہے وہ کراچی اور لاہور سے نہیں آرہا۔ 7 لوگوں کو کورونا ہوگیا جس کی وجہ سے فوری اقدام کیا گیا اور فوری طور پر پی ایس ایل کو ملتوی کرنا پڑا یہ بہت بڑا نقصان پاکستان کی کرکٹ کا ہوا ہے خدا کرے کہ یہ کوئی سازش نہ ہو ایک دوسرے پر الزام لگانے سے بہتر ہے کہ ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے، خلاف ورزی کرنےوالوں کو جرمانے کئے جائیں اور ٹیم کے اسپانسرز کو بھی وارننگ دی جائے، احسان مانی نے تو وسیم خان کو قربانی کا بکرا بنا کر آگے کر دیا ان کو خود جواب دینا چاہیے تھا اور اپنی غلطیوں پر قوم سے معافی مانگنی چاہیے تھی۔ کھلاڑیوں کو بالکل اجازت نہیں دینی چاہیے تھی باہر جانے کی، ہوٹل سے گراﺅنڈ سب کو حفاظت کےساتھ لے کر جانا چاہے تھا۔ بہر حال پاکستانی قوم کو بڑی مایوسی ہوئی ہے اور امید ہے کہ جلد از جلد دوبارہ یہ لیگ شروع ہونی چاہیے۔
٭٭٭