خدا کا لاکھ لاکھ شکر گزار ہوں کہ میرا طیارہ ساڑھے اٹھارہ گھنٹے کی نن اسٹاپ فلائٹ کی مسافت طے کرنے کے بعد سنگا پور اجسے سٹی آف جنگل بھی کہا جاتا ہے پہنچ گیا،شاہراہوں کی دونوں جانب پھولوں کے دلکش پودے اور درختوں کے لامتناعی سلسلے جس طرح نظارہ پیش کر رہے تھے، وہ ناقابل بیان ہیں، خوش قسمتی سے میں دنیا کے بے شمار شہروں سے گزرنے او ر اُنہیں دیکھنے کی سعادت حاصل کرچکا ہوں لیکن سنگاپور کی آرائش وزیبائش ہی کچھ مختلف ہے، ساڑھے اٹھارہ گھنٹے کا سفر کس طرح گزارا وہ بھی ایک ایسا تجربہ ہے جسے دوبارہ دُہرانے کیلئے مجھے پھونک پھونک کر قدم اُٹھانا پڑیگا، وہ لوگ جو سفر کے دوران طیارے میں سوجاتے ہیں اور خراٹے مارنا شروع کردیتے ہیں بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں، میری نیند کا اسٹاک تو چند منٹ بعد ہی ختم ہوجاتا ہے اور میں اُس لمحے کا انتظار کرتا رہتا ہوں جب کیپٹن صاحب اِس بات کا اعلان کریں کہ آپ کی منزل مقصود آچکی ہے ، اِس لئے اٹھئیے اور خراماں خراماں گھر کو جائیے ، میں نے تو طیارے میں ساڑھے اٹھارہ گھنٹے گزارنے کیلئے بہت ساری پلاننگ ترتیب دی تھیں لیکن بعد میں وہ سب کی رائیگاں چلی گئیں، سوچا تو یہ تھا کہ ایک دو فلم دیکھتے دیکھتے سنگاپور آجائیگا لیکن ایسی کوئی بات دیکھنے میں نہ آئی،سنگاپور مختلف مذاہب کا ملک ہے ، جس کی آبادی کے چھبیس فیصد نفوس بدھ مذہب کے پیروکاراور اٹھارہ فیصد مسلمان بھائی ہیں، باقیماندہ لوگ عیسائی اور ہندو ہیں.چونکہ وہاں کے مسلمان بھی ملیشیا نسل کے ہوتے ہیں اِسلئے دیکھنے میں وہ بھی بدھسٹ معلوم ہوتے ہیںلیکن کٹر مسلمان ہوتے ہیں۔سنگاپور شہر گھومنے کے بعد آپ کسی طور پر یہ اندازہ نہیں لگاسکتے ہیں کہ یہ ایک ترقی یافتہ ملک نہیں ہے بلکہ بہت سارے سماجی پہلوؤں میں یہ دوسرے ترقی یافتہ ملکوں سے سبقت لے گیا ہے، مثلا”سنگا پور شہر میں آپ کو کوئی ہوم لیس یا گداگر نظر نہیں آئیگا، آرچرڈ اسٹریٹ پر واقع چمکتا دمکتا شاپنگ مال جہاں امریکا کے سارے بڑے بڑے فیشن ڈیزائن اور بزنس کی نمائندگی نظر آتی ہے برصغیر ہندوپاک کے لوگوں کیلئے قابل رشک ہی ہوسکتا ہے، اِسی شاہراہ پر دفتر کے اوقات بیک پیک لادے ہوئے ہزاروں ملازمین چہل قدمی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، اُن میں حجاب پہنے ہوئے خواتین بھی ہوتی ہیں۔تاہم ترقی کے ساتھ ساتھ ترقی کے مزے لوٹنے کیلئے یہاں کافی پابندیاں عائد ہیں، مثلا” گاڑی کا خریدنا اور اِس کا رکھنا سنگا پورین کیلئے ایک درد سر بنا ہوا ہے،سنگاپور میں ایک گاڑی رکھنے کے اخراجات با آسانی چار سے چھ گنا امریکا، ملیشیا اور آسٹریلیا سے زائد ہیں، اِس کی وجہ سنگاپور میں ایک نیا پخ سرٹیفکٹ آف اِنٹائٹلمنٹ کا ہے،دو سو چوراسی اسکوائر میل کے رقبہ میں آباد ملک جس کی آبادی چھ ملین کے لگ بھگ ہے وہاں جگہ کی تنگی ڈراؤنا خواب بنی ہوئی ہے، اِسی وجہ کر سڑکوں پر گاڑیوں کی بھر مار کو روکنے کیلئے سی او ای کے نظام کو رائج کیا گیا ہے، بیس ہزار ڈالر کی گاڑی پر ایک لاکھ ڈالر سی ای او کی رقم واجب الادا ہوتی ہے، مزید برآں لینڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹی وقتا” فوقتا”شاہراہوں پر گاڑیوں کی تعداد کو محدود رکھنے کیلئے ٹیکس عائد کرتا رہتا ہے۔
اِن سارے ناگوار حالات کے باوجود سنگاپور دنیا کے نقشے میں ایک ترقی یافتہ ملک بن کر رہنے کی تگ و دو کر رہا ہے، ٹورازم کے شعبہ میں بھی سنگاپور نے کافی ترقی کی ہے. سنگاپور شہر میں ملکی اور غیرملکیوں
کی دلچسپیوں کیلئے کافی لوازمات ہیں، میرینا بے سینڈز اِسکائی پارک اُن میں سے ایک ہے جو ایفل ٹاور سے بلند ہے اور جس میں چار بوئنگ جیٹ سما سکتے ہیں، اِس کی چھت سے سنگاپور کا تین سو ساٹھ ڈگری کے زاوئیے سے نظارہ کیا جاسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں سیاحوں کا رش لگا رہتا ہے۔ اِس کے ایک
حصے میں لگزری ہوٹل جبکہ دوسرے میں شاپنگ مال اور کسینو واقع ہے. چھت پر دنیا کا سب سے لانبا ترین سوئمنگ پول واقع ہے. قرب جوار میں گارڈنز بائی دی بے جو ایک سو ایک ہیکٹرز ہے سنگاپور کے مرکز میں واقع ہے، سنگاپور ملٹی کلچرل اور بین المذاہب کا مرکز بھی ہے، شہر کے مرکز میں عرب اسٹریٹ جہاں ایک وسیع و عریض جامع مسجد واقع ہے اور مسجد کے اردگرد سینکڑوں کی تعداد میں عرب ، ترکش اور پاکستانی ریسٹورنٹ اِس طرح آباد ہیں جیسے معلوم ہوتا ہے کہ آپ مشرق وسطیٰ میں چلے آئے ہیں، اِس کے مقابلے میں لٹل اِنڈیا بھی ہے جہاں ایک چھوٹی سی مندر ہے، جب میں وہاں سے گزر رہا تھا تو ہندوز چیخ چیخ کر بھجن گا رہے تھے ، لٹل اِنڈیا بھارت کی غربت کی عکاسی کرتا ہے جہاں سے گزرنے کیلئے آپ کو چاروں آنکھیں کھولنی پڑتی ہیں کیونکہ سائڈ واک پر ایک ایک فٹ کا کھڈ اموجود ہے۔سنگاپور کی معیشت انتہائی مستحکم ہے، اِس کا ہب پورٹ اور میری ٹائم سینٹر دنیا میں ایک مقام رکھتا ہے، سال رواں میں میری ٹائم کمپنی کی جانب سے سنگا پور کو دیئے جانے والے بزنس کی رقم پانچ بلین ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے،سنگاپور میں تقریبا”پانچ ہزار میریٹائم کمپنیاں اور چار ہزار کارگو شِپ ہیں یہی وجہ ہے کہ جب کوئی سنگاپور کے ساحل کا دورہ کر رہا ہوتا ہے تو قطار در قطار کارگو شِپ کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔ میریٹائم کمپنی ، بینکنگ اور آئی ٹی کی کمپنیوں کی کوششوں نے سنگا پور کے ریزرو فنڈ کو پانچ سو بلین ڈالر تک پہنچادیا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں پاکستانیوں کو آئی ٹی کی ملازمت یا بینک کی نوکری ملنا زیادہ دشوار نہیں لیکن اُنہیں مہنگائی سے نبرد آزما ہونا پڑیگا.انگریزی یہاں کی قومی زبان ہے۔