لفظوں کا کھیل

0
136
رعنا کوثر
رعنا کوثر

اس دنیا میں جہاں بچے خوشیاں لاتے ہیں۔جو ان مضبوط سہارا ہوتے ہیں۔وہیں بزرگ بھی نعمت ہوتے ہیں ،رحمت ہوتے ہیں اگرچہ کہ بزرگوں کو بوڑھا کہہ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔بڑی ہی عجیب سی بات یہ ہے کہ دنیا کا کوئی لفظ عمر گنتی میں اتنا مایوس کن نہیں ہوتا جتنا یہ لفظ ”بوڑھا“ ہوتا ہے۔
اگر ایک چھوٹی عمر کے انسان کو بچہ کہا جائے تو وہ شاید یہ کہہ دے کہ میں بچہ نہیں ہوں بڑا ہو گیا ہوں۔نہ سننے والے کو عجیب لگے گا نہ وہ بچہ کسی دل عزاری میں مبتلا ہوگا۔
ایک جوان انسان کو کہا جائے کے تم جوان ہو ہر کام انجام دے سکتے ہو،طاقت ورہو،ہاتھ پاﺅں اور دماغ چل رہا ہے تو وہ مزید قوت محسوس کرےگااور ہر کام کرنے کو تیار ہو جائے گا۔
لیکن اگر ایک عمر رسیدہ انسان کو یہ کہا جائے کے تم بوڑھے ہو تو یہ لفظ اس کے اندر سے توانائی کھینچ لے گااور اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا جائے کے تم تو بیٹھ جاﺅ اور تسبیح پڑھو۔اپنے بڑھاپے کا خیال کرو اور ہر کام میں احتیاط برتو یہ لفظ بڑھاپا اس کی تمام قوت سلب کر لیتا ہے۔وہ اپنے آپ کو کمزور سمجھنے لگتا ہے۔اس کی قوت ارادی تک کم ہوجاتی ہے۔وہ اپنے آپ کو بیکار سمجھتا ہے اور اسی میں اپنی زندگی کے دن گزارنے لگتا ہے۔چاہے وہ لمبی عمر پائے پھر بھی اس کی قوت فیصلہ ختم ہونے لگتی ہے۔ہاتھ پاﺅں اور دماغ سے اعتماد ختم ہوجاتا ہے۔
اگر کسی آدمی کو جو اپنے اندر قوت طاقت رکھتا ہو کام کرنے کی ہمت بھی ہو بار بار یہ کہا جائے کے تم بوڑھے ہوتو یہ لفظ اسے کمزور کر دیتا ہے۔کچھ لوگ جیسے ہی ان کے بچے جوان ہوتے ہیں۔خود ہی کہنے لگتے ہیں اب تو ہم بوڑھے ہوگئے ہیں۔مائیں گھر کا کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔باپ بیٹوں کے جوان ہوتے ہی اپنے کام سے فارغ ہوجاتے ہیں۔بچوں کے جوان ہوتے ہی اپنے آپ کو کمزور اور بوڑھا سمجھنا ان کو واقعی کمزور کردیتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے بوڑھے کو اگر بوڑھا نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔ہر قوم میں بوڑھے کو کسی نہ کسی نام سے پکارا ہی جاتا ہے۔مگر ہمارے ہاں عمر رسیدہ افراد کو ویسے تو بہت احترام دیا جاتا ہے۔اتنا احترام کے وہ وقت سے پہلے اپنے آپ کو بوڑھا اور ناتواں سمجھنے لگتے ہیں۔کھانا بستر پہ لا کر دیا جاتا ہے۔ہر قدم پر ہاتھ پکڑا جاتا ہے اور بھی بہت کچھ ہم احترام سے کرتے ہیںیوں یہ لوگ اپنے آپ کو آزاد سمجھنا چھوڑ دیتے ہیںاور سہارا مانگتے ہیں یا پھر ایسے لوگ بھی ہیںجو عمر رسیدہ ہونے کے باوجود جوانوں کی طرح رہن سہن پہننا اوڑھنا کر لیتے ہیںتاکہ کوئی انہیں بوڑھا کہہ کر نہ پکارے۔
یہ لفظ ایک ایسا لقب بن گیا ہے جو کوئی بھی کہلوانا پسند نہیں کرتا،ایک زمانہ تھا کسی بڑے کو دیکھ کر یہ کہا جاتا تھا آپ ہمارے بزرگ ہیں۔آپ نے دنیا دیکھی ہے اس لیے آپ قابل احترام ہیں۔ہمیں کچھ سکھائے کچھ بتائیے۔ہماری اصلاح کیجئے اور ایسے میں وہ بڑی عمر کا آدمی اپنے آپ کو معتبر سمجھتا۔عقل مند سمجھتا مشورے دیتا۔حتیٰ کے کھانے پینے کی چیزیں بتاتا کے وہ کیوں کہ ابھی تک جوان ہے۔اسے عزت کروانا اچھا لگتا۔کیونکہ وہ گھر کا بزرگ ہوتا یعنی ایک ایسا انسان جس نے اس دنیا میں اپنا قیمتی وقت گزارا ہے۔آج ہم صرف یہ کہتے ہیں آپ بوڑھے ہوگئے ہیں۔ریٹائرڈ ہوجائیں اپنا بلڈپریشر چیک کرائیں۔اپنا آنکھوں کا معائنہ کرائیں۔بچے اپنے والدین کو دن بدن اپنی محبت کا احساس یہ کہہ کر کراتے ہیں۔ کے آبا آپ بوڑھے ہوگئے ہیں۔اپنی صحت کا خیال کریں میٹھا مت کھائیں۔نمک سے پرہیز کریں۔امی کو بھی یہی کہا جاتا ہے۔اماں آپ بوڑھی ہوگئی ہیں۔گھر سے کم نکلیں۔کھانا مت پکائیں، وغیرہ مگر ان کو ہمارے بزرگ ہمارے بڑے کہنا چھوڑ دیا ہے مشورے لینا اور اپنے فیصلوں میں ان کو شامل کرنا چھوڑ دیا ہے۔اب وہ صرف بوڑھے ہیں بزرگ نہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here