حیدر علی
معلوم ہوا ہے کہ پاکستان کے بااثر طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایک حلقہ نے اسکاٹ لینڈ یارڈ کے سراغرسانوں سے رابطہ قائم کیا ہے تاکہ وہ اُن دو ارکان اسمبلی کی شناخت کر سکیں جن کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ اُنہیں ایجنسی نے چار گھنٹے تک قید میں رکھ کر وزیراعظم عمران خان کو ووٹ دلوایا تھا۔ جیسا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما¶ں نے الزام لگایا تھا کہ اُن دو اراکین قومی اسمبلی جنکا تعلق پی ٹی آئی سے بتایا جاتا ہے اُنہیں اسلام آباد کی ایک سنسان گلی کے کنٹینر زمیں قید کرکے رکھا گیا تھا۔ اُن اراکین کے سارے ملبوسات جن میں کوٹ ، پینٹ اور ٹائی شامل تھے اُتر وا لئے گئے تھے،اور اور اُن کا سیاسی لبادہ صرف چڈی تک محدود تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اُن کی نگرانی کیلئے دو گارڈز شکاری کتّا لئے وہاں تعینات تھے ۔ وہ گارڈز بارہا اراکین اسمبلی کو متنبہ کر رہے تھے کہ یہ کتّا انتہائی بھوکا ہے، اِسے گوشت کھانے کی ضرورت ہے، اور یہ کتّا انسان کا گوشت انتہائی شوق سے کھاتا ہے ۔ یہ سُن کر اراکین اسمبلی کی ہوا نکل کر رہ گئی تھی ۔ وہ گارڈز اراکین اسمبلی سے یہ دریافت کر رہے تھے کہ کیا اُنہیں نغمہ نگاری کا شوق ہے؟ تو اراکین اسمبلی نے جواب دیا تھا کہ نہیں وہ صرف علامہ اقبال کا شعر اپنی تقریر میں سناتے ہیں ۔ جس پر گارڈز ناراض ہو گئے تھے ، اور کہا تھا کہ تم لوگ ایڈیٹ ہو، تم لوگوں کو پاپ اور راک میوزک سے بھی دلچسپی رکھنی چاہیے تھی، تب ہی تم عمران خان کے سچے وفادار ہو سکتے تھے ۔ معلوم ہوا ہے کہ کتے نے اراکین اسمبلی کی ٹانگ کو بھی چھو لیا تھا، لیکن کاٹنے سے گریز کیا تھا ۔ اراکین اسمبلی چیخ پڑے تھے، اور باپ رے باپ ، مجھے بچا¶ کی صدا لگانے لگے تھے ۔ جس پر گارڈز نے اُنہیں کہا تھا کہ اُنہیں بچانے کیلئے وہاں صرف موت کا فرشتہ ہی آ سکتا ہے ۔ ایک رکن اسمبلی کو سخت پیاس لگی تھی ، تو گارڈ نے اُنہیں کہا تھا کہ تم گلاس میں پیشاب کر و اور اُسے پیو ۔ اُس نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ لوگ کنٹینر زمیں خاطر مدارت کرنے کیلئے نہیں، بلکہ اُنہیں سزا دینے کیلئے آئے ہیں، تاکہ دوسرے اراکین اسمبلی بھی اِس سے عبرت حاصل کرسکیں ۔ گارڈز نے اراکین اسمبلی سے نجی سوالات بھی پوچھنا شروع کر دیا تھا، مثلا”اُن کی سیکس لائف کیسی ہے؟ کیا وہ وائیگرا کا استعمال کرتے ہیں کیا اُن کی بیگم کے علاوہ اور بھی گرل فرینڈ ز ہیں ۔ اراکین اسمبلی نے ہر سوال کا تشفی بخش جواب دیا تھا، تاکہ گارڈز کا پارہ نہ گرم ہوجائے ، اور وہ اُنہیں قتل نہ کردیں ۔
بہرکیف مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ سینیٹ کے چیئرمین کا چنا¶ مکمل ہوچکا ہے، لیکن جس بات اندیشہ تھا وہی ظہور پذیر ہوگیا، یعنی ایک فریق سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے حمایتی اور عزیز و اقارب نے سینیٹ کے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے یکسر مسترد کر دیا ہے، بلکہ ووٹ کی گنتی ہونے سے قبل ہی یوسف رضا گیلانی کے چشم و چراغ نے یہ بیان بھی داغ دیا کہ سینیٹ کے انتخاب میں زبردست دھاندلی ہوئی ہے ۔ دھاندلی کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ7 اراکین اسمبلی نے اپنے ووٹ کا نشان صحیح جگہ نہیں لگایا تھا ۔ ایک رکن اسمبلی نے اِس کی وجہ یہ بتائی کہ وہ عالم بیخودی میں چلے گئے تھے ، اور وہ ووٹنگ پیپر کو صحیح طور پر پڑھ بھی نہیں سک رہے تھے ۔ اُنہیں پیپر پر روپے کی شکلیں نظر آرہیں تھیں ۔ اُنہوں نے جلدی میں اپنی بیگم کو کال کی تھی، اور اُنہوں نے اُنہیں مشورہ دیا تھا کہ جہاں بھی ممکن ہو مہر لگا دو ۔ بعد ازاں اُنہیں پتا چلا کہ شاید وہ صحیح جگہ سے تقریبا6 انچ دور کے فاصلے پر مہر لگی تھی ۔ ایک دوسرے رکن اسمبلی جنہیں بھی شبہ ہے کہ اُنہوں نے بھی غلط جگہ پر مہر لگائی تھی کہا کہ اُنہیں کسی نے ہپنائیز کر دیا تھا، اور وہ ہر چیز کو اُس کی اصل جگہ سے چھ سے آٹھ انچ کے فاصلے پر دیکھنے لگے تھے ۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ ڈاکٹر سے بھی رجوع کیا تھا اور ڈاکٹر نے اُنہیں سونے کی پِلز دے دی تھی، جس سے معاملہ اور بھی خراب ہوگیا تھا ۔ ایک تیسرے رکن اسمبلی جنہوں نے بھی مہر غلط جگہ پر لگائی تھی کہا کہ اُن کی آنکھ کی بینائی شروع سے ہی بہت کمزور ہے، اور بعض اوقات تو وہ عینک کی بجائے دوربین استعمال کیا کرتے ہیں ۔ اُنہوں نے کہا کہ انتخاب کے دِن وہ دوربین لانا بھول گئے تھے ۔
دو اراکین اسمبلی جو ایکسپوز ہوچکے ہیں ، اُن کے علاوہ 16 اور بھی ایسے اراکین اسمبلی ہیں جن کے بارے میں چہ مگوئیاں گردش کر رہی ہیں ۔ اُن اراکین اسمبلی کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ شک وشبہ کی بنیاد پر اُنہیں سینیٹرز کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے اُن کے حق رائے دہی کے حقوق کو سلب کر دیا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اُن کا ووٹ پڑے لیکن مخالفین کے حق میں ۔ اور اب متعدد قومی اسمبلی کے اراکین چھوٹے یا بڑے پیمانے پر جرائم کا نشانہ بن رہے ہیں ۔ مثلاًفیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ایک رکن اسمبلی کی نئی گاڑی گذشتہ ہفتے اُن کے گھر سے چوری ہوگئی ۔ اُنہوںنے چیخ و پکار کرنا شروع کردی کہ ہائے اﷲ میری قسمت ہوئی خراب ، 16کے نمبر میں میں بھی شامل ہوگیا ہوں ۔ پہلے یہ حکم ہوا تھا کہ گھر سے نہ نکلنا، اور اب گھر کے اندر سے گاڑی غائب ہورہی ہے ۔ دوسرے دِن اُن کا فینسی کتّا بھی گھر سے چوری ہوگیا ۔ جب اُنہوں نے پولیس کو کال کی تو جواب یہ موصول ہوا کہ ” اُنکے گھر پر جنات کا سایہ پڑگیا ہے، لہذا اِس طرح کی واردات کیلئے وہ تیار رہیں ۔
ایک اور رکن اسمبلی جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ بھی نمبر 16 میں شامل ہیں، چور نے اُن کی گاڑی کا شیشہ توڑ کر اُن کے بریف کیس کو اُڑا دیا، جس میں ایک اچھی خاصی رقم محفوظ تھی ۔ رات کو گھر پر اُنہیں ایک کال آئی جس میں اُن سے یہ دریافت کیا جارہا تھا کہ پانچ لاکھ روپے کی رقم اُنہیں کہا ں سے موصول ہوئی تھی؟ وہ اِس کا سراغ بتائیں ، ورنہ معاملہ نیب کے حوالے کردیا جائیگا ۔