جاوید رانا، بیوروچیف شکاگو
لعنت ہو اس پر جو اپنی غرض کی خاطر وطن کی عزت و عظمت اور سلامتی کو داو¿ پر لگانے سے بھی نہ چوکے۔ خود کو قائد اعظم اور مسلم لیگ کی وارث ہونے کی دعویدار جماعت کا بے غیرت، دشمن دروہی پارلیمنٹیرین میاں جاوید لطیف کہتا ہے ”اگر مریم نواز کو کچھ ہوا تو بے نظیر کی شہادت پر زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا تھا لیکن مریم کو کسی بھی نقصان کی صورت میں پاکستان کھپے نہیں ہو گا۔ اس شیطان نے اپنے مفرور، ڈکیت آقا کی پیروی اور چاپلوسی میںعسکری اشرافیہ پردشنام طرازی کی جرا¿ت کرتے ہوئے خاکم بدہن پاکستان ٹوٹنے کی بھی نفرت انگیز دعویداری کی ہے۔ شیخوپورہ کے اس شیطان نے اپنے آقا کی خوشنودی کیلئے پاک وطن اور میرے دیس کے محافظوں کے بارے دریدہ دہنی تو کر دی لیکن اس نے یہ بھی دیکھ لیا کہ خود اس کے جماعتی رہنما اور ساتھیوں نے اس وطن دشمنی کے مو¿قف کو نہ صرف رد کر دیا بلکہ میاں جاوید لطیف کے اس زہریلے اور وطن دشمن بیانئے کی شدید مذمت بھی کی ہے۔ سوشل میڈیا اور کراچی سے کشمیر تک اس کے بھونکنے پر اس کے خلاف اور اس کے بھگوڑے آقا کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں لیکن اس بے شرم کی ڈھٹائی برقرار ہے اور شدید لعن طعن کے باوجود یہ بد طینت اپنے موقف پر اڑا ہوا ہے اور سانحہ مشرقی پاکستان کی مثال دے کر معاذ اللہ پاکستان کے وجود کے خاتمے کی پیشگوئیاں کر رہا ہے۔ یہ بھول گیا ہے کہ پاکستان کا بچہ بچہ وطن کی سلامتی و بقاءکیلئے اپنی جان کا نذرانہ دینے پر ہر وقت تیار ہے۔ میرے وطن کی ماں اپنے جوان بیٹے کی شہادت پر اس کی لہو رنگ وردی کو چوم کر خدا کا شکرا دا کرتی ہے کہ میرا بیٹا وطن کی بقاءکیلئے سرخرو ہوا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ سیاسی تماش بینی کے گندے کھیل میں جاوید لطیف جیسے کثیف لوگوں کو وطن عزیز کی شکست و ریخت کی نفرت انگیزی کی جرا¿ت کیسے ہو جاتی ہے اور ہمارے ریاستی ، حکومتی و عدالتی ادارے اس پر خاموش کیوں رہتے ہیں۔ کیا ہمارے حکومتی ارباب اختیار میں اتنی بھی جرا¿ت نہیں کہ وہ اس شیطان کیخلاف کوئی ریفرنس ہی دائر کر سکیں۔ کیا ہماری اعلیٰ عدلیہ جو چھوٹے چھوٹے ایشوز پر از خود نوٹس لے لیتی ہے وطن دشمنی کی اس حرکت پر خصوصاً جب جاوید لطیف اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے کوئی نوٹس نہیں لے سکتی اور کیا ہماری پارلیمان آئین کی متعلقہ شق اور عہد کی خلاف ورزی کی بناءپر اس منحوس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کر سکتی ہے۔ بادی النظر میں اس شیطان کا یہ بیانیہ اپنے بھگوڑے آقا کے اس ایجنڈے کا تسلسل نظر آتا ہے جس کے تحت وہ لندن میں بیٹھ کر مودی اور دیگر پاکستان دشمن قوتوں کے ایماءپر ہماری عسکری قیادت کیخلاف مہم جاری رکھے ہوئے اور اپنے پروپیگنڈے سے نہ صرف قوم کو گمراہ کرنا چاہتا ہے بلکہ ہماری فوج میں بھی دراڑیں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جاوید لطیف اور اس کا آقا شاید یہ بھول گئے ہیں کہ پاکستان خصوصاً پنجاب کے ہر گھر میں پاکستان کی حفاظت کرنیوالے سر سے کفن باندھے تیار ہیں۔ اپنی سیاسی برتری خصوصاً پنجاب میں اپنا ووٹ برقرار رکھنے کیلئے اگر یہ شیطان سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ کامیاب ہو سکیں گے تو یہ ان کا خیال خام ہے۔ سیاست کے کھیل میں اگر وطن پر آنچ آنے کا شائبہ بھی ہو تو پنجاب و پاکستان کے غیور عوام ان شیطانوں کی رہی سہی سیاسی حیثیت بھی خاک میں ملا دیں گے۔
ویسے بھی پاکستانی سیاست میں آج کل جو تماشے ہو رہے ہیں وہ ماضی کے کسی دور میں نہیں ہوتے رہے۔ ہم وقتاً فوقتاً اپنے کالموں میں قارئین کو ان تماشہ بازیوں سے آگاہ کرتے رہے ہیں۔ گذشتہ پونے تین سال سے اپوزیشن اور حکومت کے درمیان سیاسی محاذ آرائی کا ایک سلسلہ جاری ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عام آدمی کی پریشانیاں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ وہ تبدیلی حکومت سے وابستہ بہتری و خوشحالی کی امید سے بھی مایوس نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف وہ اپوزیشن کی مفاد پرستانہ چور بازاریوں، لوٹ مار اور منافقانہ سیاست کو پہلے ہی رد کر چکے ہیں۔ درحقیقت پچھلے تیس ماہ کے سیاسی و معاشی منظر نامہ پر نظر ڈالیں تو عوام غریب سے غریب تر ہو چکے ہیں۔ متوسط طبقہ اپنی سفید پوشی برقرار رکھنے سے محروم ہے۔ مہنگائی نے لوگوں کی کمر توڑ دی ہے بیروزگاری میں تین سو فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ وزیر اعظم اور موجودہ حکومت کی کوششوں سے اگرچہ میکرو اکنامک سرگرمیوں اور وسائل میں بہتری آئی ہے جس کی عالمی مالیاتی اداروں نے بھی تعریف کی ہے لیکن مائیکرو لیول پر عوام کی پریشانیوں میں بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آئی۔ پناہ گاہیں قائم کرنا، نوجوان روزگار پروگرام ، ہیلتھ کارڈ کا اجراءاور روزانہ ٹرک پر کھانے کی تقسیم وغیرہ یقینا تحسین آمیز ہیں لیکن 22 کروڑ عوام کی پریشانیوں کا مداوا نہیں ہو سکتے۔ کپتان اور حکومت کو اس کیلئے مستقل بنیادوں پر مستحکم اقدامات کرنا ہونگے۔
اقتدار سے محروم شکست خوردہ اپوزیشن سے سیاسی تماشہ بازی تو ختم ہونے میں نہیں آئے گی اور نہ ہی اس تماشہ بازی سے حکومت کا کچھ بگڑنے کا احتمال نظر آتا ہے ۔ غالب کے لفظوں میں بازیچہ¿ افطال کا تماشہ بوڑھی اپوزیشن کے خلاف جا چکا ہے۔ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن سے مخالفین کے سیاسی تابوت میں آخری کیل بھی ٹھک چکی ہے اور لانگ مارچ لئے فضل الرحمن کا استعفوں کا مطالبہ اب پی ڈی ایم کی سیاسی تدفین کا پیش خیمہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور زرداری اپنے سیاسی و پارلیمانی اسٹیک کو کبھی بھی داو¿ پر نہیں لگائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کپتان اور موجودہ حکومت عوام کے بہتر حالات زندگی، نظام کی فعالیت اور ریاست کی بہتری و اصلاحات پر توجہ دیں۔ تبدیلی حکومت کو نئی بااعتماد سیاسی سبقت ملی ہے اگر اس سے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو اگلے انتخابات میں کامیابی دشوار مرحلہ ہو سکتی ہے۔