انتخابات وقت پر ہونگے……!!!

0
65
جاوید رانا

ہم نے اپنے گزشتہ کالم آئین اور انصاف کا نواحہ میں اپنے تجزئیے میں اس امر کا اشارہ دیا تھا کہ مقتدرین اس وقت تک انتخابات کے انعقاد پر راضی نہیں ہونگے جب تک انہیں یہ یقین نہ ہو جائے کہ عمران خان کو سیاسی و انتخابی منظر نامے سے باہر نہ کر دیا جائے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اسمبلی (قومی) کی مدت 13 اگست کو پوری ہو جائیگی۔ موجودہ امپورٹڈ وزیراعظم نے بھی واضح کر دیا ہے کہ تکمیل مدت پر حکومت کا اختتام ہونے کے بعد نگران حکومت اُمور حکومت متعینہ آئینی مدت تک چلائے گی اور الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ و انعقاد کا فیصلہ کریگا۔ جس وقت ہمارا یہ کالم آپ کے زیر مطالعہ ہوگا، اسمبلی کی مدت پوری ہونے میں تقریباً تین ہفتے رہ گئے۔ مبصرین کے مطابق اسمبلی کو ومدت تکمیل سے قبل ہی تحلیل کر کے آئین کے مطابق انتخابات 90 روز میں کرائے جانے کا راستہ نکالا جائیگا یعنی انتخابات 5 یا 12 نومبر کو کرائے جائینگے تاہم ہمارا تجزیہ و خدشہ ابھی بھی یہی ہے کہ انتخابات نومبر میں ہوتے نظر نہیں آرہے اور معاملات 2024ء کے اوائل تک ہی جائیں گے۔ ہمارے اس خدشے یا تجزئیے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تو یہی ہے کہ کیا مقتدرین اپنے اس منصوبے کو اس مدت میں عملی جامہ پہنا سکیں گے کہ عمران کو سیاسی و انتخابی منظر نامے سے مائنس کر دیا جائے۔ زور آور اور ان کے آلۂ کار اپنے تمام حربے آزمانے پر عمل پیرا ہیں، عمران پر مقدمات کی بھرمار، جناح ہائوس پر حملے کے تناظر میں مختلف مکاتب فکر و حیات کے وفود کے وزٹ اور مذمت و جے آئی ٹی کے سلسلوں کا معاملہ تو جاری ہی ہے، خان کے ساتھیوں، وفاداروں اور ہمدردوں پر قید و بند، زور زبردستی اور سبز باغ دکھا کر علیحدہ سیاسی گروہ بندی کا گھٹیا کھیل بھی کھیلا جا رہا ہے۔ تازہ ترین تماشہ پرویز خٹک اور محمود خان کی جانب سے پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کا 57 پارلیمنٹیرینز کے ہمراہ قیام ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ابھی اعلان کو کچھ دیر بھی نہیں ہوئی تھی کہ درجنوں افراد نے اپنی شمولیت کی تردید کرتے ہوئے عمران خان سے اپنی وفاداری کا واضح عزم ظاہر کر دیا ہے۔ یہ حقیقت واضح ہے کہ عمران کیخلاف کئے جانے والا ہر حربہ ناکامی سے دوچار ہوا ہے اور ہر تشدد و زیادتی و اقدام کے باوجود عمران کے عزم و استقلال میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے بلکہ وہ اور مضبوط و مقبول ہو رہاہے۔ وطن عزیز بلکہ بیرون ملک پاکستانیوں کی حمایت اور ہمدردی خصوصاً نوجوان نسل میں لٹیروں اور آزمائے ہوئے شریفوں اور زرداریوں کیخلاف نفرت کا لاوا انتہائی پر ہے، وہ کبھی بھی ان چوروں، ڈاکوئوں اور ملک کے وسائل ہڑپ کرنے والوں کو ووٹ نہیں دینگے۔ الیکشن کمیشن کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق ووٹرز کی کُل تعداد 12 کروڑ ہے، ان میں سے 18 سے 35برس کی عمر کے ووٹرز 5 کروڑ ہیں، اور اگر ان میں 45 برس کی عمر کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد 8 کروڑ سے بھی تجاوز کر جاتی ہے۔ عمران خان عوام کیلئے ایک مسیحا کا روپ اختیار کر چکا ہے اور عوام کے اس سے لگائو، محبت اور سپورٹ کے سبب فیصلہ سازوں کیلئے مشکل نظر آتا ہے کہ وہ الیکشن کروا کر کسی طرح عمران کو کامیابی سے روک سکیں۔ بالفرض اگر کپتان کو سزا یا نا اہلی کے ذریعے انتخابی عمل سے باہر بھی کر دیا جائے تب بھی اس کا ووٹ بینک برقرار ہے اور الیکشن میں ہر وہ امیدوار ہی کامیاب ہوگا جس کا حوالہ عمران خان ہوگا۔ آثار یہی نظر آتے ہیں کہ پی ٹی آئی چھوڑ کر پارٹیاں بدلنے والے، نئی پارٹی یا گروہ بنانے والے خواہ الیکٹیبل ہی ہوں کامیابی سے محروم ہی رہیں گے۔ اس صورتحال میں فیصلہ ساز وقت پر الیکشن کرانے کا فیصلہ کرینگے؟ شنید تو یہ بھی ہے کہ مقتدر حلقے بھی ایک متبادل سوچ کے تحت اپنی پالیسی پر نظر ثانی کر رہے ہیں، اس حوالے سے بعض اہم و سرکردہ ذمہ داروں کی کپتان سے رابطوں کی اطلاعات بھی گردش میں ہیں۔
اب دیگر وجوہ پر بھی بات کر لیتے ہیں۔ اسمبلیوں کی تکمیل یا تحلیل کے بعد پہلا مرحلہ نگران حکومتوں بالخصوص وزیراعظم / وزرائے اعلیٰ کی نامزدگیوں کا آتا ہے جو سربراہ حکومت و قائد حزب اختلاف کے اتفاق سے ہوتی ہیں۔ وفاقی سطح پر قائد حزب اختلاف راجہ ریاض (عمران کا منحرف اور ن لیگ کے ٹکٹ کا متمنی ) ہے جو میں نے قبول کیا ہے ہی کہنے پر مجبور ہوگا لیکن آئی ایم ایف کی امداد کے سبب نگران وزیراعظم کا معاملہ آزمائش ہوگا کہ دوسری قسط کا حصول نیز امداد کے معاہدے اور شرائط کے مطابق عمل کو یقینی بنائے۔ بعض خبروں کے مطابق اس عمل پذیری کیلئے دو ماہ یا تین ماہ کے برعکس نگران حکومت کو کم از کم چار سے چھ مہینے بھی لگ سکتے ہیں، گویا اسمبلیوں کی تکمیل یا تحلیل کے بعد انتخابی عمل آئین کے مطابق 60 یا 90د ن سے تجاوز کریگا اور انتخابات 2024ء کے اوائل یا پہلی سہ ماہی تک جا سکتے ہیں۔ متذکرہ بالا حقائق کیساتھ ہمارے قومی خدشات تو یہ بھی ہیں کہ فیصلہ سازوں کے عمران خان کو کسی بھی صورت میں سیاسی ایرینا سے خارج کرنے اور اپنے مقصد کو تکیل تک پہنچانے کے سبب عوامی رد عمل و غصے کا اظہار وطن عزیز کو مزید عدم استحکام و بربادی سے دوچار نہ کر دے اور جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ جائے۔ حکومتی ٹولے میں سیاسی و اختلافی جوڑ توڑ اور محاذ آرائی کا آغاز بھی زور پر ہے اور وہ اس حقیقت کو بھی جانتے ہیں کہ عمران کے ہوتے ہوئے اور شفاف و منصفانہ انتخابات میں ان کی کامیابی ناممکن ہے۔ ان حالات میں ہمارا سوال یہی ہے ”کیا انتخابات وقت پر ہونگے؟۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here