یہ سوال ہر کس و ناکس پاکستانی کے ذہن میں ابھرتا ہے کہ آیا پاکستان پیپلز پارٹی کے کو چیئر مین بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کے درمیان تعلقات صرف سیاسی رفاقت تک محدود ہیں یا اِس کا حدود اربعہ بڑھ کر عقیدت کے دامن کو بھی چھو چکا ہے،سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مریم نواز نے بلاول بھٹو کو یہ کہا تھا کہ اُن دونوں کی دوستی سیاست کو عبور کرکے بہت آگے چلی گئی ہے اور اب یہ تا قیامت ختم نہیں ہوسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ جب بھی اُن دونوں کی ملاقات ہوتی تھی تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی ایک دوسرے کو یہ کہہ رہا ہو کہ ” بہاروں پھول برسا¶ میرا محبوب آیا ہے ، ہوا¶ں راگنی گا¶ میرا محبوب آیا ہے اور پھر مریم نواز کا بلاول بھٹو کیلئے اپنے ہاتھ سے پکائی ہوئی کھیر بھی سیاسی حلقے سے قریب لوگوں کیلئے سوالیہ نشان بن گئی ہے، اُس کھیر کو بار بار کھاکر بلاول بھٹو کا وزن کم از کم دس پونڈ بڑھ گیا ہے، جب بھی پی ڈی ایم کا کوئی بھی اجلاس ہوا اگر دونوں شرکت نہ کر رہے ہوں تو ایک کی نگاہیں دوسرے کو تلاش کرتی رہتی تھیں، بلاول بھٹو تو مریم نواز کی عدم موجودگی میں صرف خلا میں گھورتے رہتے تھے اور مریم نواز صرف اپنے دوپٹہ کے دامن کو ہی سنبھالتی رہتی تھیںاور اجلاس کے شرکا سے مریم کا یہی سوال ہوتا تھا کہ کیا بلاول بھٹو نہیں آرہے ہیں؟ یہی سوال بلاول بھٹو بھی مریم نواز کی عدم موجودگی میں دُہراتے تھے، سندھ کا شہزادہ پنجاب سے تعلق رکھنے والی شہزادی کو اپنے دِل کے گوشہ میں اِس طرح بسا لیا تھا جیسے وہ دو سیاسی پارٹیوں کے اعلی عہدیدار نہیں بلکہ لوک کہانی کے ہیر رانجھا ہوں، بلاول بھٹو کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی کہ جب بھی وہ ہوائی سفر کریں تو اُن کی نشست مریم نواز کے بغل میں ہو ایک مرتبہ تو وہ اپنی نشست زبردستی ایک پسنجر سے تبدیل کرا کر اُن کے بغل میں کروالیا تھا یہ بھی ایک کرشمہ فطرت ہے کہ ایک دوسرے کی موجودگی میں کسی ایک پر بھی تھکاوٹ یا ناراضگی کی کوئی آثار نمایاں نہیں ہوتی بلکہ مسکراہٹ اور قہقہے کا پھول جھرکتا تھا۔
لیکن شومئی قسمت کہ جہاں ایک زرداری پی ڈی ایم پر اتنے بھاری ہوگئے کہ اُسکا شیرازہ بکھر کر رہ گیا ، وہاں اُنہوں نے اپنے فرزند بلاول بھٹو زرداری کو بھی نہیں چھوڑا اور جہاں بلاول مریم نواز کے بارے میں سہانے خواب دیکھا کرتے تھے، وہ بھی چکنا چور ہوگیا، محترم آصف زرداری کو علم ہوگیا کہ اُن کا بیٹا ” مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ“ میں گرفتار ہوگیا ہے اور اُس کی محبوبہ بھی ایک حسین ، دلگداز عارض، پُرکشش جسامت کی ملکہ لیکن ایک شادی شدہ خاتون ہیں،سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری بھی ایک ترقی پسند ، ادب نواز، اصول پرست شخصیت کے مالک ہیں، وہ تمام روایت، خاندانی مراسم کو خیرباد کہہ کر کوئی بھی فیصلہ صادر کرنے کے مجاز ہیں لیکن یہاں وہ دو محبت کرنے والوں کے درمیان ایک خط تنسیخ نقش کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں ، وہ مجبوری اُن کی دوستی ہے اور شاید اُن کی شہید بیگم بے نظیر بھٹو کی روح کی پکار بھی ہو۔
یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے اِس ضمن میں ایک سخت لائحہ عمل اپنانے کو ترجیح دی ہے، سارے لوگ جانتے ہیں کہ سابق صدر آصف زرداری ایک کمان سے دو شکار کرنے کے ماہر ہیں لہٰذا پی ڈی ایم کے اجلاس میں اُن کی تقریر جہاں اُنہیں اپنی پارٹی کو ہلڑ بازی سے علیحدہ کرنا مقصود تھا، وہاں وہ اپنے فرزند بلاول بھٹو کی نجی زندگی کو گرفت میں رکھنے کی آزمائش بھی تھی، اُنہوں نے بلاول بھٹو کو بُلاکر ایک گھنٹے تک ایک زبردست ڈانٹ پلائی تھی اور اُنہیں مشورہ دیا تھا کہ لڑکیوں کے بارے اُنہیں کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں، بلاول بھٹو بھی اپنے جذبات کو قابو میں نہیں رکھ سکے تھے، اُنہوں نے بھی چیخ کر کہہ دیا تھا کہ وہ بھی آکسفورڈ میں رہ چکے ہیں، اُنہیں بھی مشرقی اور مغربی آداب زندگی کا علم ہے ، وہ کوئی پودے بونے والے کی اولاد نہیں، انھوں نے بھی اپنی ماں شہید بے نظیر بھٹو سے بہت کچھ سیکھا ہے، بلاول بھٹو نے چیخ کر یہ کہہ دیا تھا کہ اگر آج اُن کی ماں زندہ ہوتی تو اُنہیں دو ٹکے کی ایڈیٹ سے ایسی باتیں نہ سننی پڑتیںجس پر آصف زرداری نے یہ جواب دیا تھا کہ اگر میں پودے بونے والے کا بیٹا ہوں ، تب بھی مجھے علم ہے کہ سویڈن کا دارلخلافہ اسٹاک ہوم ہے تمہیں تو یہ بھی نہیں پتا صوبہ سندھ میں کتنے گوٹھ ہیں، کتنے ضلع ہیں تمہیں تو میں نے بارہا یہ کہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مطالعہ کیا کرو، ٹی وی کی خبریں دیکھا کرو لیکن تم تو وہ سارا وقت اپنی گرل فرینڈز سے ٹیلیفون پر باتیں کرنے میں گنواتے ہو اور جب میں کہتا ہوں کہ شادی کر لو ، تو تمہارا جواب ہوتا ہے ابھی نہیں،گرل فرینڈز کے چکر میں زیادہ سے زیادہ وقت برباد کرنا ہمارے لئے اب ناقابل برداشت بن گیا ہے اور اب میں تمہاری نگرانی خودکیا کرونگا۔
بلاشبہ اچانک بلاول بھٹو زرداری کے قدموں سے سرخ قالین سرک گیا، جسے آپ زرداری فیملی کے ایک اندرونی انقلاب سے بھی موسوم کر سکتے ہیں، بلاول کی سخت سے سخت نگرانی شروع ہوگئی ، آصف زرداری رات میں اٹھ کر خود اُنکے کمرے کی نگرانی کرنے لگے بلکہ بستر کو ٹٹول کر یہ دیکھنے بھی لگے کہ بلاول وہاں سورہے ہیں،اُن کی تمام ٹیلیفون کال کی بھی جانچ پڑتال شروع ہوگئی کہ کس کی کال آئی تھی اور کسے بلاول نے کال کیا تھا ، کسی بھی سیاسی میٹنگ کی پوری رپورٹ بلاول بھٹو کے باڈی گارڈز آصف زرداری کو براہ راست دینے لگے بلکہ اُنہیں یہ بھی بتانے لگے کہ بلاول بھٹو زرداری نے کسی خاتون رہنما سے پرسنل میٹنگ تو نہیں کی تھی حتیٰ کہ بلاول کی پریسکرپشن کی بھی تحقیقات کی جانے لگی ہیں۔