پاکستان میں آج کل ایک ہی شور ہے کہ فردوس عاشق اعوان نے ایک اسسٹنٹ کمشنر کو کیوں جھڑکا، اسی معاملے کو لے کر سوشل میڈیا پر ایسی کی تیسی پھیری جا رہی ہے جہاں حکومت اور بعض دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد اس بات کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں کہ فردوس عاشق اعوان نے غلط نہیں کیا اور اسسٹنٹ کمشنر کو میدان میں عملی طور پر کام کرتے ہوئے نظر آنا چاہئے بلکہ بعض افراد کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ ملک میں اس وقت مصنوعی مہنگائی کا طوفان برپا ہونے کے پیچھے بنیادی وجہ ہی بیوروکریسی کی سست روی اور غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے جس کا خمیازہ ملا کر حکومتی اراکین کو بھگتنا پڑتا ہے، فردوس عاشق عوام نے بھی وزیر اعلیٰ پنجاب کے مشیر کے طور پر اسسٹنٹ کمشنر کو اسی لئے تنقید کا نشانہ بنایا کیونکہ وہ اپنے فرائض کو انجام دینے کی بجائے فردوس عاشق اعوان کے دورے کے وقت اپنے گاڑی میں اے سی آن کر بیٹھی ہوئی تھی۔دوسری جانب بعض افراد نے فردوس عاشق اعوان کے رویے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں ایک سرکاری ملازم کے ساتھ ایسا برتاؤ نہیں کرنا چاہئے تھا، کوئی کسی بھی پوزیشن پر کیوں نہ ہو ہتک عزت کا اختیار کسی کو نہیں۔خدا جانے کب تک یہ بحث بھی جاری رہے گی مگر تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، اردو زبان کا یہ محاورہ بخوبی سب سمجھتے اور جانتے ہیں، کہا یہ جا رہا ہے کہ فردوس عاشق اعوان کا اسسٹنٹ کمشنر کے ساتھ رویہ بنیادی طور پر بیوروکریسی پر اپنے دھاک بٹھانے کے لئے ایک حربہ تھا، چلے اگر وہ اپنی دھاک بٹھا بھی لیتے ہیں تو اس سے کیا عوام کے بنیادی مسائل حل ہو جائیں گے، مہنگائی سے ماری عوام کو آئے روز اس طرح کے حربوں سے کیا خوش کیا جا سکتا ہے، کیا آپ لوگ ان ناموں پر اب مزید تالیاں بجائیں گے۔
یہ معاملہ صرف ایک سیاست دان اور بیوروکریٹ کا نہیں بلکہ پاکستان میں بنیادی مسئلہ ہی اپنے اختیارات کے مناسب استعمال کا ہے۔ پاکستان تو اللہ کے فضل و کرم سے وہ ملک ہے جہاں پر آرمی چیف بھی اپنے باس یعنی وزیر دفاع یا سیکرٹری دفاع کا تقرر خود کرواتا ہے، اپنے باس کو کمرے کے باہر بٹھا کر ملک کے چیف ایگزیکٹو یعنی وزیراعظم کے ساتھ ون آن ون ملاقات کرسی کے برابر کرسی رکھوا کر کرتا ہے۔یہاں پر نظام کی طاقت کو کوئی بھی ماننے یا نظام کو طاقتور بنانے پر تیار نہیں، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی مثال تو پاکستان میں سو فیصد لاگو ہوتی ہے، درحقیقت فردوس عاشق اعوان اور اسسٹنٹ کمشنر کے معاملے میں بی یہی بنیادی وجہ تھی کہ پنجاب میں بیوروکریسی اپنے آپ کو ہمیشہ سے ایک مضبوط ستون سمجھتی ہے مگر شاید وہ بھول گئی ہے کہ اب کی بار تو حکومت ان کی ہے جو کسی کو نہ جواب دیتے ہیں اور نہ ہی اپنے سے بڑھ کر کسی کو طاقتور سمجھتے ہیں۔ مگر یقین جانے ایک بات پر میں بھی قائل ہوں کہ پاکستان میں مہنگائی کی جو اس وقت بنیادی وجہ ہے ان میں بیوروکریسی کا آنکھیں بند کر چلنا بھی شامل ہے، اس لئے مجھے فردوس عاشق اعوان کی جانب سے اسسٹنٹ کمشنر کے ساتھ روا رکھے گئے رویے پر نہ خوشی ہے اور نہ دکھ بلکہ فیس بک پر ایک فقرہ پڑھا تھا جو شاید اس تمام حالات کی بہترین عکاسی کرتا ہے کہ” یہاں تمام اے سی کی مرمت کا کام تسلی بخش کیا جاتا ہے”میڈم مکینک!
٭٭٭