محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے ، آج میں آپ کی خدمت میں کچھ معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اکثر واٹس ایپ گروپوں میں آجکل جس طرح کے پیغامات پڑھنے کو مل رہے ہیں وہ لمحہ فکریہ ہیں !!۔۔
مثلاً کسی بھی سائنسی تھیوری کو آیات قرآنی سے حوالہ دے کر اس بات کی تصدیق کرنا کہ کلام پاک میں بھی تو ایسا ہی لکھاہے مجھے حیرت ہوتی ہے مسلمان کے جذبہ ایمانی پر جب یہ تحریریں نظر سے گزرتی ہیں کہ اللہ کے کلام پر ہم کو بھلا سائنس کی ضرورت کیوں پڑگئی یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ کلام پاک کا ایک ایک حرف حق ہے، کلام پاک کی ہر آیت حق اور سچ ہے یہ دنیامیں حق و باطل کا معیار اور انسانیت کیلئے رہتی دنیا تک مشعل راہ اور شمع ہدایت ہے۔ مسلمانوں کے تمام فرقے الحمد للہ قرآن پاک کے معاملے میں ایک ہیں ، تمام مسالک میں ایک ہی قرآن تعلیم دیا جاتا ہے، الحمد للہ تفاسیر میں کچھ بیانات ہیں وہ مابین اختلاف ہو سکتے ہیں لیکن پورا کلام پاک الحمد کی الف سے لے کر والناس کی سین تک تمام کلمہ گو مسلمان ایک ہی قرآن پڑھتے ہیں ۔اب آتے ہیں سائنس اور مثالوں کی طرف کہ دراصل ہم مسلمانوں کا مسئلہ ہی یہی ہے کہ قصص قرآنی کی توثیق ہم سائنس سے کرتے ہیں اور تب جاکر کہیں “پکے” ہوتے ہیں کہ ہاںبھئی قرآن مجید میں جو لکھا ہے وہ درست ہے، سائنس بھی یہی کہہ رہی ہے جبکہ ہونا اس کا اُلٹ چاہئے تھا ، پہلے ہم قرآن مجید کو پڑھتے، سمجھتے اور پھر اس کی روشنی میں سائنسی تحقیق کو آگے بڑھاتے، اس یقین کے ساتھ کہ اللہ نے کہہ دیا کہ ایسا ہوا تو یقینا” ہوا ھے اور اس کے پیچھے ٹھوس سائنسی وجوہات بھی ہیں لیکن جس دین ملا میں سائنسی ایجادات حرام قرار دی جائیں اس میں سائنس کی جگہ تو بنتی ہی نہیں ۔ قرآن مجید پہ یقین ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور اسے ماننے کیلئے کسی سائنسی توجیہہ و توثیق کی بالکل ضرورت نہیں ۔ سورہ مبارکہ البقرہ میں قرآن پہ ایمان کیلئے ارشاد ہوا۔
ترجمہ: اس سے مراد قرآن پہ ایمان ہے۔ اس کے بعد سورہ مبارکہ التغابن میں فرمایا یہاں اللہ، اس کے رسول کے ساتھ،ترجمہ: سے مراد قرآن مبین ہے۔ قرآن کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ دنیا کا ایسا کوئی علم نہیں جو قرآن مجید میں موجود نہ ہو۔ا
٭٭٭