عاشقی صبر طلب، تمنا بیتاب!!!

0
208
جاوید رانا

میں ابھی لاہور میں ہی ہوں اور اپنے قریبی دوست اور دیرینہ رفیق زاہد حمید کی صاحبزادی کی شادی کی تقاریب کی مختلف النوع سرگرمیوں میں شرکت کرتا رہا ہوں، درحقیقت رانا صاحب کی جانب سے منعقدہ اپنی شہزادی کی شادی لاہور میں ہونیوالی شادی کی تقاریب میں سے ایک مثالی اور تاریخ ساز تقریب شمار کی جا سکتی ہے، جس میں ہر مکتبۂ فکر کی ممتاز شخصیات اور ان کے خاندانوں کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس حوالے سے جہاں مجھے اپنے پرانے دوستوں اور عرصے سے بچھڑے ہوئے پیاروں سے ملاقات کا موقع ملا بلکہ مختلف سیاسی رہنمائوں کی موجودگی اور ان سے سیاسی و معاشرتی حالات پر آگاہی بھی حاصل ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر سیاسی جماعت کے رہنمائوں نے اپنے سیاسی مؤقف کا ابلاغ واضح کیا اور مخالفین کی کمزوریوں کو بنیاد بنا کر مستقبل قریب اور عوام کے حوالے سے اپنے مؤقف و سیاسی برتری خصوصاً بلدیاتی و عام انتخابات میں اپنی کامیابیوں کے دعوے بھی کئے۔ اپنے تین عشروں پر مشتمل تجربے و مشاہدات اور دشتَ سیاست کی طویل صحرانوردی کے ناطے حسب جبّلت ہم نے حالیہ سیاسی صورتحال کو سمجھنے اور حقائق پر کچھ عرض کرنے کیلئے جہاں مختلف سیاسی و معاشی حالات کو سمجھنے کی خاطر مختلف طبقات زندگی سے ملاقاتیں کیں وہیں مختلف بازاروں اور تجارتی مراکز کا بھی دورہ کیا۔ جو حقائق ہمارے سامنے آئے ہیں وہ یقیناً موجودہ حکومت کے حق میں ہر گز نہیں جاتے بالخصوص ملک میں موجود لوئر مڈل کلاس اور خط غربت سے نیچے عوام کا بہت بڑا طبقہ مہنگائی اور اپنی زندگی سکون سے گزارنے میں حامل دُشواریوں سے بے انتہاء پریشان ہیں اور نتیجتاً اس اعتراف کے باوجود کہ ملک کی قیادت کیلئے وزیراعظم عمران خان کو گزشتہ حکمرانوں سے بہتر سمجھتے ہیں،موجودہ حکومت سے بیزار نظر آتے ہیں۔ ہمارے مختلف افراد و خواتین ا ور نوجوان نسل سے ملاقاتوں میں یہ بات سامنے آئی کہ پچھلے حکمران کتنے ہی کرپٹ سہی، انہوں نے ہمیں دو وقت کی روٹی اور گھر چلانے میں مشکلات نہیں دیں۔
ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی وزیراعظم سے یہی التماس کی تھی کہ عوام کی پریشان حالی اور مہنگائی کی افتاد سے حکومت اور پی ٹی آئی کی مقبولیت پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں بہتر یہی ہوگا کہ عوام کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے فوری اقدامات پر توجہ دی جائے لیکن ہماری عرضداشت صدا بصحرا ہی ثابت ہوتی نظر آئی ہے۔ ایک جانب تو ادارۂ شماریات نے موجودہ مہنگائی کو گزشتہ22 ماہ میں بلند ترین اشارئیے پر قرار دیا ہے۔ دوسری جانب فنانس بل (منی بجٹ) پیش کئے جانے پر مہنگائی کا طوفان متوقع ہے۔ وزیر خزانہ شوکت عزیز کا فرمان کہ اس فنانس بل کا عام آدمی پر صرف 2 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا، مہنگائی کے بوجھ کی تفصیل میں جائے بغیر کہ دودھ کے ڈبے، ماچس کی ڈبیا یا دوائیوں پر کتنا بوجھ پڑے گا، ہم ماہرین معاشیات کے اس تبصرے کو دہرا دیتے ہیں کہ فنانس بل کے اثرات ہر ماہ بجلی اور فیول کی قیمتوں میں اضافے کے باعث ہر پاکستانی پر ماہانہ 20 ہزار روپے کا بوجھ چھ ماہ تک پڑے گا۔ ہماری اس عرضداشت کی وجہ یہ ہے کہ اپنے سروے کے دوران عورتوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کی رقت انگیز دہائیاں اور بددعائیں سنیں۔ ہم عمران خان کے چاہنے والوں میں سے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ کپتان نہ صرف آج سُرخرو رہیں بلکہ آئندہ بھی سُرخرو رہیں۔
دیکھنا ہوگا کہ آخر وہ کون سے عوامل یا محرکات ہیں کہ جو موجودہ حکومت کے متعدد عوام دوست منصوبوں، پراجیکٹس اور اقدامات کے باوجود عوام الناس شکوہ کناں ہیں اور کھلاڑیوں کی مقبولیت متاثر ہو رہی ہے۔ مخالفین اور شکست خوردہ سیاسی برزجمہروں کی حرکات، بیانئے اور تنقید تو سیاسی عمل کا حصہ ہوتے ہیں لیکن اگر برسر اقتدار لوگوں کا بیانیہ، رویہ اور عمل مثبت ہو تو محاورتاً کووئوں کے کوسوں ڈھول نہیں پھٹتے ہیں۔ گورننس اور انتظامی کنٹرول کے مسائل پر تو شروع سے ہی انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں، دیگر محرکات میں کپتان اور ان کے کھلاڑیوں کے وہ روئیے اور عمل بھی اس کا اہم محرک ہیں جو وہ شوز میں ظاہر کرتے ہیں اور اپنی ساری توانائیاں محض مخالفین پر الزام تراشیوں، تہمت لگانے پر صرف کرتے ہیں۔ شریفوں اور زرداریوں کی کرپشن، ڈیل و ڈھیل کے ہنگام پرسارا زور لگایا جاتا ہے، بعض اوقات ایسے موضوعات پر بیان بازی کی جاتی ہے جن کانہ کوئی جواز ہوتا ہے اور نہ سر پیر بلکہ اس طرح کے بیان افتراق کا سبب بنتے ہیں۔
ہمارے اس مؤقف کی تازہ ترین مثال وزیر اطلاعات کا قائداعظم کے گیارہ ستمبر 1947ء کی تقریر کے حوالے سے بیان ہے جس میں وزیراطلاعات نے کہہ دیا کہ قائداعظم پاکستان کو اسلامی نہیں سیکولر و فلاحی مملکت بنانا چاہتے تھے۔ موصوف کے اس بیان نے ایک لا یعنی بحث کو جنم دیدیا ہے جو سوائے ذہنی خلل بڑھانے کے اور کچھ نہیں وزیراطلاعات نے یہ بیان پختونخواہ میں فضل الرحمن کی کامیابی کے تناظر میں ان کی جماعت کو مذہبی شدت پسند قرار دینے کی کوشش میں عطاء فرمایا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جے یو آئی کے ریکارڈ پر ایسا کوئی حوالہ نظر نہیںآتا قطع نظر اس کے کہ مولانا اقتدار اور مال بنانے اور اپنی سیاست برقرار رکھنے کیلئے مدرسوں کا سہارا لیتے ہیں حقیقت تو یہ بھی ہے دین مبین سے بڑھ کر کوئی بھی دنیاوی نظام فلاح پر مبنی نہیں جس کی وضاحت خود حدیث قُدسی اور نبی اکرمۖ اور خلفائے راشدین کے عمل اور نظام سے مترشح ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر قائداعظم سیکولر اسٹیٹ کے حامی تھے تو دو قومی نظرئیے کی بنیاد پر قیام پاکستان کی جدوجہد کیوں کرتے۔ سب سے بڑھ کر پاکستان میں جتنے بھی آئین بنے بشمول موجودہ آئین ان کی اساس اللہ کی حاکمیت اور قوانین اسلامی پر ہے اور قرارداد مقاصد جزو آئین ہے۔
یہ امر مسلمہ ہے کہ کسی بھی حکومت کا وزیر مملکت، اس حکومت کا ترجمان بلکہ چہرہ ہوتا ہے۔ ریاست مدینہ کی داعی حکومت کا وزیر اطلاعات یہ بیان دے کر کیا اپنی حکومت کے منشور اور منزل کی تخفیف نہیں کر رہا ہے۔ موصوف محترم ویسے بھی شوق اقتدار میں جماعتی تبدیلیوں کا لمبا ریکارڈ رکھتے ہیں، لیکن ایسا تو نہیں کہ وہ اپنے مستقبل کیلئے تحریک انصاف کے مثبت تصور کو دھندلانا چاہتے ہوں۔ وزیراطلاعات کے اس بیان سے عوام پر جو منفی اثر پڑ سکتا ہے وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تشخص کو دھندلانے کیساتھ تحریک انصاف کیلئے مثبت نہیں ہو سکتا۔ بات وزیراطلاعات تک ہی نہیں ہے اور بھی بہت سے ایسے چہرے ہیں جو اقتدار کیلئے تحریک انصاف میں اپنے کھیل میں مصروف ہیں۔ وزیراعظم کو اس جانب بھی توجہ دینی ہوگی۔ تحریک کے سچے اور مخلص ساتھیوں کو آگے لائیں اور عوامی بہبود و گورننس کو یقینی بنائیں۔ نوازشریف خاندان اور زرداری و دیگر کو ہدف بنانے کے وظیفے سے کام نہیں چلے گا۔ آپ کی کارکردگی آپ کی جیت ہے ورنہ بقول غالب!
عاشقی صبرِ طلب اور تمنا بیتاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
یہ شعر ہر اس سیاسی کردار پر صادق آتا ہے جو اقتدارکے حصول یا تسلسل کے لیے بے صبری اور بیتابی میں مبتلا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here