کیا کپتان گھر جانے والا ہے ؟

0
118
مجیب ایس لودھی

عمران خان کی قیادت میں پاکستانی حکومت نے ایک اچھی شروعات کی تھی لیکن پانچ سال تک ملکی معاملات کو احسن طریقے سے چلانا ہی اصل کامیابی ہے جو کہ بدقسمتی سے عمران خان میں حصے میں آتی دکھائی نہیں دے رہی ہے ، اپوزیشن میں رہتے ہوئے لیڈر کے لیے غصہ کرنا ، سخت موقف اختیار کرنا جائز اور درست ہوتا ہے لیکن حکومت میں آنے کے بعد معاملات کو فہم وفراست کے ذریعے حل کرنا پڑتا ہے ، غصے اور تکبر کی بجائے سمجھداری اور افہام و تفہیم سے معاملات کو نمٹانا پڑتا ہے ، لیکن عمران خان اپوزیشن کے دبائو میں آکر اپنے خطرناک ہونے کے بیانات داغنے لگے جوکہ ان کی کمزوری کی واضح مثال ہے ۔حکومتی معاملات اس حد تک خراب ہو چکے ہیں کہ اپوزیشن اس وقت حکومت گرانے کی پوزیشن میں آ گئی ہے ، اپوزیشن اتحاد نے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی قرار داد پیش کر دی ہے جس کے تحت حکومت کو کسی بھی وقت گھر بھیجا جا سکتا ہے لیکن اس کیلئے اپوزیشن کو اکثریت کی ضرورت ہوگی ، اپوزیشن کے مطابق انھوں نے حکومت کو گھر بھجوانے کے لیے نمبرز پورے کر لیے ہیں لیکن حکومت کا دعویٰ ہے کہ اسمبلی میں ان کی اکثریت ہے اور تمام مبران ان کے ساتھ ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر وزیراعظم یا وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو فلور کراسنگ قانون کے تحت آئندہ بننے والا وزیراعظم یا وزیراعلیٰ زیادہ دیر اپنی تعداد میں برتری برقرار نہیں رکھ سکے گا، کیونکہ اپوزیشن کا ساتھ دینے والے اتحادی یا حکومتی اراکین کی رکنیت معطل کرائی جاسکتی ہے۔اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت جمع کروائی گئی ہے۔ دوسری جانب آئین کا آرٹیکل 95 واضح طور پر وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی صورت میں کارروائی سات دن کے اندر اندر مکمل کرنے کی ہدایت بھی کرتا ہے۔پاکستان میں سے منتخب سربراہ حکومت (وزیراعظم) کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار قومی اسمبلی میں حلیف اور حریف اراکین کی تعداد کے فرق پر منحصر ہوتا ہے اور موجودہ ایوان میں اسی نمبرز گیم کی تبدیلی یا عدم تبدیلی وزیر اعظم عمران خان کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔
سال 2018کے انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی موجودہ قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف عددی اعتبار سے سب سے بڑی قوت ہے، جس نے دوسری جماعتوں کی حمایت سے وفاقی حکومت بنا رکھی ہے۔پاکستان میں وفاقی حکومت و قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے 155 اراکین کے علاوہ مسلم لیگ ق (5)، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (7)، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (3)، عوامی مسلم لیگ (1)، بلوچستان عوامی پارٹی (5)، جمہوری وطن پارٹی (1) اور دو آزاد اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔ عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کی روس کی حمایت کے بعد ملکی سیاست میں پیدا ہونے والے طوفان کو عالمی سازش بھی قرار دیا جارہا ہے کیونکہ حکومت نے عالمی تناظر سے ہٹ کر جس طرح روس کا ساتھ دیا ہے اس پر یورپ اور خاص طور پر امریکہ بہت زیادہ ناراض ہے اور عمران خان کو سبق سکھانے کے لیے سیاستی بساط کو پلٹنے کیلئے کوششیں کرر ہا ہے ، ملک کی موجودہ صورتحال ذوالفقار علی بھٹو کے دور کی یاد تازہ کر رہی ہے جب ہنری کسنجر نے بھٹو کو دھمکی دی تھی کہ میں تمھیں سبق سکھائوں گا اور فوج نے بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا کر اس کام کو انجام تک پہنچایا تھا۔اب عمران خان کو بھی امریکہ کی شدید مخالفت کا سامنا ہے اور ملک میں سیاسی بھونچال کو بھی اسی سے جوڑا جا رہا ہے کہ وہ اپوزیشن جو حکومت کو آئینی طریقے سے گھر بھیجنے کی باتیں کر رہی تھی اچانک تحریک عدم اعتماد کے لیے متحرک کیوں ہو گئی ہے ، قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد جمع کرانے والے اپوزیشن اراکین میں ایاز صادق، مریم اورنگزیب، شازیہ مری، سعد رفیق، رانا ثنا اللہ اور نوید قمر شامل ہیں۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی میں اعداد کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ ‘ہم ان کو لائیں گے بھی اور 172 سے زیادہ ووٹ لیں گے، موجودہ صورتحال میں اپوزیشن کی پوزیشن مضبوط دکھائی دے رہی ہے لیکن اگر حکومت اس تحریک کو ناکام بنانے میں کامیاب رہی تو حکومت کو آئینی مدت پوری کرنے سے کوئی روک نہیں سکے گا بلکہ سیاسی مبصرین کے مطابق اگر اپوزیشن کی یہ تحریک ناکام ہوگئی تو انہیں آئندہ انتخابات میں بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here