بالآخر شہباز شریف اور پی ڈی ایم عمران حکومت گرانے میں کامیاب ۔ عمران خان حکومت سپریم کورٹ کی رولنگ اور تحریک عدم اعتماد کی نظر ہوئی ۔ شہباز شریف بارہ پارٹیوں کے اتحاد سے وزیراعظم منتخب ہوئے ۔اسٹیبلشمنٹ لیباریٹری کا ایک اور تجربہ ناکام ہوا۔جس تیزی سے جہاز بھر بھر کر کھوتوں کے گلے میں پی ٹی آئی کا پٹہ ڈالاگیا ۔اتنی ہی تیزی میں ان کھوتوں نے پٹے اتار پھینکے۔ پی ٹی آئی، ن لیگ،پی پی پی، اے این پی،ایم کیو ایم جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹتی ہیں۔مگر پارٹی الیکشن سے بھاگتی ہیں۔ اسلئے اسٹبلشمنٹ ، عدلیہ ،اندرونی اور بیرونی مداخلت سے کوئی حکومت پانچ سال پورے نہیں کرپاتی ۔عید قربان پر آخری دو دن کی طرح سیاسی بکرے بہت قیمتی نظر آئے۔ شہباز شریف کے پاس بارہ جماعتوں کے وعدے ہیں ۔ مہنگائی ہے۔ ایکدوسرے کو گھسٹنے والے، پیٹ پھاڑنے والے ، شہباز اور زرداری، عورت کی حکمرانی قبول نہ کرنے والے مولانا صاحب مریم کے پیچھے کھڑے ہیں ۔ کل کے دہشت گرد اور وطن دشمن ایم کیو ایم ساڑھے تین سال پی ٹی آئی حکومت میں رہی۔ ان سب کے چہرے ،انکے گزشتہ بیانات کو ایمانداری کے ترازو میں تول کر دیکھیں ۔ ان میں ایک بھی ایسا نہیں جو ملکی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جنہوں نے بھی آج تک ملکی sovereignty کو بیچا ہے ۔ ان غداروں کو تختہ دار پر لٹکایا جائے۔فوج سے ہوں یا سیاسی پارٹیوں سے نشان عبرت بنایا جائے۔ آگے آگے دیکھیے ۔یہ چوں چوں کا مربہ کیا گل کھلاتا ہے۔ انکے درمیان پاور شیرنگ فارمولہ کیسے آگے بڑھتا ہے۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ اب پولیٹکل ورکرز کو چاہئے کہ اپنی پارٹیوں میں یہ مسئلہ اٹھائیں کہ ہمعہدیدار کیوں نہیں بن سکتے۔زرداری اور شریف خاندان ہی کیوں۔ الیکشن کو سلیکٹڈ اور فراڈ کہنے والے اسی فراڈ اسمبلی کا خلف اٹھا رہے ہیں۔جو کہتے تھے کہ ہمجعلی اسمبلی کو نہیں مانتے ۔وہ سب گروپ آج اقتدار میں ہیں۔یعنی ساری لڑائی اقتدار کی تھی۔ اگر عمران وعدے پورے کرتے آج عدم اعتماد دور تک نظر نہ آتی۔ عمران خان اپنی غلطیوں پر بھی غور کریں۔آپ سب سے بڑا ووٹ بنک رکھتے ہیں ۔ تدبر، حکمت اور بردباری خود بھی سیکھیں اور کارکناں کو بھی سکھائیں۔ متشدد ذہنیت نقصان دہ ہوا کرتی ہے۔عمران خان نے قوم کو ایکبار پھر موبلائز کردیا ہے۔ مرد کا بچہ تھا آخری وقت تک لڑا۔ بزدل ہوتا تو دوائی لینے چلا جاتا۔ ہسپتالوں سے ہیلتھ کارڈ پر علاج بند۔ رجیم تبدیل کرنے کے لئے تیرہ سیاسی پارٹیاں ۔ تین سو ملین ڈالر اور چھ سو کڑوڑ ججوں، جرنیلوں اور لوٹوں کو خریدنے پر صرف ہوئے ۔ لیکن عمران خان کی آواز پر پورے پاکستان میں لوگوں کاسمندر امڈ آیا۔ کراڈ میں موجود ہر شخص کچھ کہنا چاہتاہے۔ چوہتر برس کی وحشت پر بولنا چاہتا ہے۔ عمران خان کے بیانئے نے قوم کو چارج کردیا ہے ۔ اپنا narrative بلڈ کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں ۔ ان کے ساتھ ہمدردیوں کا ایک طوفان ہے ۔ جو آئیندہ الیکشن میں انہیں کامیابی سے ہمکنار کرئے گی۔ نئی حکومت آنے سے ڈان لیک کا بیانیہ واپس آرہا ہے۔ نواز شریف اور اسحاق ڈار چند دنوں میں واپس آئینگے ۔ سپریم کورٹ ان کی نااہلیت ختم کریگی۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ دفن ہوچکا۔ سبھی پارٹیاں آئین کے تخفظ کی بات کرتی ہیں ۔ اقتدار میں آنے پر اسی آئین کا حلیہ بگاڑتی ہیں ۔اقتدار کی دوام کی لئے من پسند ترامیم کرتی ہیں ۔ عمران خان ،شہباز شریف ، زرداری اور فضل الرحمن کا انتحاب سے پہلے ووٹرز سے وعدہ اور اقتدار میں آنے کے بعد طرز حکومت کا جائزہ ضرور لیں۔
پی ٹی آئی کے دوست یاد رکھیں اگر فوج نیوٹرل ہے تو گلہ کیسا ۔ عمران خان دھرنا میں ہر روز کہتے تھے ائمپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے۔ کرکٹ میں نیوٹرل ائمپائر کے قائل تھے ۔ آج پی ٹی آئی لیڈر شپ کہتی ہے کہ عمران خان جاتے جاتے سب کو ننگا کر گیا۔ اس فیصلہ سے عدلیہ نے واقعی اپنا وقار مجروع کیا ۔ قوم کا عدلیہ سے اعتماد اٹھ گیا فوج کے روئیے کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔فوج اور عدلیہ کو اپنا کردار واضح اور صاف رکھنا چاہئے۔
لیکن سوال ہے کہ عمران خان نے ساڑھے تین سال میں جوڈیشری، پولیس اور الیکشن کمیشن میں ریفارمز کیوں نہ کیں ۔ حالانکہ کئی بل اکثریت میں پاس کروائے گئے۔ یہ ماننا پڑے گا کہ انہوں نے زیادہ وقت گالم گلوچ اور بیڈ گورنس میں گزارا۔ یہ کسے ممکن ہے کہ دس منسٹر وہی ہوں جو ہر دور میں وزیر رہے۔ پچاس ایم این اے وہ ہوں جو پی پی اور ن لیگ میں رہے ۔ الیکٹیبلز کی فوج ہو ۔ تو یہ لوگ کیا تبدیلی لائینگے۔
جب ترین کے جہاز میں لوگ بھر کر لائے گئے تو کیا وہ فرشتے تھے ، یا وہ بے ضمیر مفت آئے تھے ۔ ؟ اب اگر وہ دوبارہ بک گئے ہیں تو رونا کا چیز کا۔ مٹھا مٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو۔؟
ان لوٹوں نے بھی ضمیر بیچا تھا۔ اور مت بھولئے پی ٹی آئی نئی نویلی دلہن اور مختلف الخیال افراد پر مشتمل مختلف پارٹیوں کا مجموعہ ہے۔ یہ پارٹی نہ تو آسمان سے اتری ہے اور نہ زمین سے نکلی ہے۔ اس لئے انکے لئے لڑنا، تعلق خراب کرنا مناسب نہیں ۔ پی ڈی ایم ہو یا پی ٹی آئی میجارٹی مفاد پرستوں کے ٹولے ہیں۔ آپ اپنے اپنے علاقے میں ان تمام پارٹیوں کی لیڈر شپ کی خدمت خلق ، کردار اور اعمال کا جائزہ ضرور لیجے۔انکی تجوریاں کل کیا تھیں اور آج انہوں نے کتنا مال بنایا ہے ۔ ضرور یاد رکھیں ۔ بحیثیت انسان ہمغلطیوں مبرا نہیں۔ میں نے یو این او میں عمران کے خطاب کو اسلامو فوبیا اور حرمت رسول پر جرآت مندانہ موقف کی کھل کر تعریف کی ہے۔ اپنے گزشتہ کالمز میں کئی مرتبہ لکھا ہے۔ کہ پی ٹی آئی پر آفت ، انکے رویوں، انکی بدتہذیبی ، انکی لمبی زبانیں اور میں نا مانوں کی وجہ سے آئے گی۔ خوش اخلاقی ایسا عطر ہے جسے جتنا زیادہ آپ دوسروں پر چھڑکیں گے اتنی ہی زیادہ خوشبو آپکے اندر آئیگی۔
قارئین ! میری آپ سے عرض ہے کہ آپ جس مرضی جماعت اے تعلق رکھتے ہوں ، اخلاقیات کا دامن مت چھوڑیں ، کیونکہ اخلاقیات ہماری تربیت ،ہماری بیک گرانڈ اور نسل کا پتہ دیتی ہیں۔پی ٹی آئی نے جس نرسری کی پرورش کی ہے ، ان میں اکثریت بدتہذیبی ، کردار کشی اور گالی گلوچ کو جائز سمجھتی ہے۔ دھرنا کے دوران عمران خان کی تقاریر مولا جٹ کی کا دوسرا version تھیں۔ آج اگر ن لیگ کے پٹواری یا مولانا ڈیزل کے حواری یا پی پی پی کے جیالے وہی زبان استعمال کریں تو پی ٹی آئی کو کیوں تکلیف ہوتی ہے۔ امریکہ جتنا مرضی پیسہ لگا لے اگر یہ لوگ باکردار، اور نسلی ہوتی تو کبھی ضمیر کا سودا نہ کرتے۔
اگر میں یوٹرن لوں ،جھوٹ بولوں، نبء محترم کی حرمت پر فرانس کے سفیر کو نکالنے سے انکار کردوں۔ امریکی شہریت ہولڈر وزیر ، مشیر اور ایڈوائزرز کی فوج بھرتی کرلیں تو سب جائزہے۔ کیونکہ میری تنقیدی انگلیاں دوسروں کیطرف اٹھتی ہیں، ناکہ اپنے منافقانہ کردار کیطرف۔ پی ٹی آئی کے دوست یاد رکھیں اگر فوج نیوٹرل ہے تو گلہ کیسا ۔ عمران خان دھرنا میں ہر روز کہتے تھے ائمپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے۔ کرکٹ میں نیوٹرل ائمپائر کے قائل تھے ۔ آج پی ٹی آئی لیڈر شپ کہتی ہے کہ عمران خان جاتے جاتے سب کو ننگا کر گیا۔ اس فیصلہ سے عدلیہ نے واقعی اپنا وقار مجروع کیا ۔ قوم کا عدلیہ سے اعتماد اٹھ گیا فوج کے روئیے کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔فوج اور عدلیہ کو اپنا کردار واضح اور صاف رکھنا چاہئے۔
جب عمران خان اکثریت کھو چکے تھے تو انہیں باعزت طریقہ سے استعفی دینا چاہئے تھا۔ عمران نے بائیس ارکان کی نااہلیت کے لئے کورٹ کا رخ نہیں کیا تھا اور نہ ہی خط کو بروقت سپریم کورٹ انکوائری کے لئے دیا تھا ۔ عمران خان اپنے آپ کو آئین اے بالاتر سمجھتے ھیں۔ وزرا کی زبان انتہائی غلیظ اور لہجے متکبرانہ ھیں جس کی سزا اللہ نے انہیں دی ہے۔ جیسی زبان عمران اور اسکی ٹیم استعمال کرتی رہی ہے ۔ آج اسکے خمیازہ بھگتنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ پاکستان میں کوئی شخص آئین سے ماورا نہیں ۔ یہی جج صاحب تھے جنہوں نے عمران خان کو صادق اور آمین کا خطاب دیا تھا ۔ اگر آئین کی پاسداری کی جاتی تو عدلیہ شائد نرمی کا معاملہ کرتی۔ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کو اپنے رویوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
پی ٹی آئی کے استعفوں سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگیا ۔آئیندہ ماہ بجٹ بھی پیش ہونا ہے۔ موجودہ حکومت کے لئے کٹھن مرحلہ آنے ہی والا ہے۔ بالآخر الیکشن کیطرف جانا پڑے گا۔ ملکی حالات جلدی الیکشن کے متقاضی ہیں ۔ ن لیگ، پیپلز پارٹی،ایم کیوایم ،بی این پی، فضل الرحمن گروپ، افواج پاکستان کے خلاف گروپ، اختر مینگل گروپ، آزاد ارکان۔شازین بگٹی للچائی نظروں سے اپنے اپنے حصوں کے منتظر ۔ اصل امتحان شروع ہو چکا ہے۔ ایم کیو ایم نے اپنے معاہدے کا نام نہ لینے پر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ محفل ہماری وجہ سے سجائی گئی ہے۔ شہباز شریف نے آتے ہی صحت کارڈ پروگرام کو ختم کرکے بینظیر اِنکم سپورٹ پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے آئیندہ الیکشن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں پنجاب سے قومی اسمبلی کی بیس اور صوبائی اسمبلی کی چالیس سیٹیں مانگ لی ہیں ۔
شہباز شریف ایم کیو ایم کے پاس بہادر آباد جائینگے ۔
اسمبلی میں شہباز شریف کے وزیراعظم منتحب ہونے پر ۔نہ جھکنے والا نہ بکنے والا نواز شریف کے نعرے بلند ہوئے۔ دوسری جانب جئے بھٹو ،ایک زرداری سب پی بھاری کے نعرے لگتے رہے۔ لیگی ارکان نے جوش میں آکر مریم نواز کی نعرے بھی بلند کئے۔وزیراعظم نواز شریف کے نعرے لگتے رہے جو گزشتہ دو سال سے دوائی لینے لنڈن گئے ہیں۔ قوم کے تقریبا سبھی لیڈر عوام سے جھوٹ بولتے ہیں ۔لوٹ مار کرتے ہیں ۔ پارٹیاں بدلے ہیں پرانے چہرے پرسکون لگا کرعوام میں بار بار آجاتے ہیں۔
قارئین! آقا دو جہاں ،امام الانبیا ،خاتم النبین ، رسول خدا ،احمد مجتبی ،محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مومن جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ مومن بدزبان اور بدکلام نہیں ہوسکتا ۔تو کیا ہمنے کبھی جائزہ لیا ہے کہ ہماری سیاسی وابستگی صرف شخصیت پرستی ہے۔ اگر ہماتنا احترام اپنے ماں باپ ،اور بڑوں کا کریں تو یقینا اللہ کو راضی کریں ۔ کیونکہ صلہ رحمی ، بڑوں کا احترام ،زبان کی نرمی کا حکم اللہ رب العزت نے اپنی پیاری کتاب (قرآن حکیم) میں دیا ہے۔زندگی انتہائی مختصر ہے ۔ اسے انجوائے کئجے دوسروں کے مفادات کی بھینٹ مت چڑھائیے۔ کیا ہممذیب میں بھی اتنی ہی عقیدت کے قائل ہیں جتنی عقیدت اپنے سیاسی لیڈروں سے کرتے ہیں ۔ ایک دور تھا ایک ہی محلہ میں پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ، جماعت اسلامی اور مختلف مسلکی نظریہ اے وابستہ لوگ ایک مٹھی کی طرح رہتے تہے۔ عزت، احترام اور ادب کا لخاظ تھا۔ مگر گزشتہ چند سالوں میں نہ محلوں میں وہ محبت رہی اور نہ ہی گھروں میں ادب کے وہ رشتے۔
بحیثت مسلمان ہمیں اپنے اس کلمہ توحید کی پاسداری بھی کرنی ہے جسکا ہم اقرار کرتے ہیں ۔ یعنی اس میں ہم عبادت خدا کی ، اطاعت مصطفے کی اور خدمت مخلوق خدا کی ۔ یہ تین کلمات ہیںجن کے گرد ہماری زندگی گومتی ہے۔ اللہ کے احکامات (قرآن )نبء کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ (زندگی) اور نظام زندگی ۔ جس میں ماں باپ، بہن بھائی ، عزیز و اقربا کے حقوق، بڑوں کے آداب (یعنی آداب زندگی)۔ ان سیاسی لیڈروں کے لئے اپنی عاقبت کو مد نظر رکھنا ہمارا اخلاقی اور ایمانی فریضہ ہے۔
٭٭٭