”نوکری یا کاروبار”!!!

0
123
جنید خان تنولی
جنید خان تنولی

جو لوگ نوکری کرتے ہیں انکی نسل در نسلیں بھی نوکری کرتی ہیں ۔ کیونکہ نوکری خاندانوں کو پالتی ہے لیکن کاروبار نسلوں کو پالتا ہے۔ لوگ اس سے موٹیویٹ ہو کر کاروبار کرتے ہیں پھر ناکام ہو کر دوسروں کے لئے مثال بن جاتے ہیں ۔ کوئی بھی کاروبار کرو پہلے پانچ چیزیں ذہن نشین کرنی چاہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ جہاں کاروبار کرنا ہے وہاں کی کیا ضرورت ہے یا سہولت نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ کاروبار میں نفع و نقصان لازم و ملزوم ہیں پہلے نقصان کا خیال کرنا ہے اور نقصان کی صورت میں بیک اپ رقم ہو۔ لہٰذا ساری رقم خرچ نہیں کرنی۔ تیسری بات یہ ہے کہ کاروبار میں اپنا ہی نہیں سوچا جاتا بلکہ گاہک کا بھی خیال کیا جائے اسکو بھی فائدہ ہو۔ چوتھی بات یہ اہم ہے کہ وہ کاروبار کیا جائے جس کے ان پُٹ اور آئوٹ پُٹ کا پتہ ہو۔ مثال کے طور پر ایک ڈاکٹر ہے وہ کریانہ کی دوکان کھولے دے ۔ بہت سے لوگ زندگی میں مہارت کسی کام میں رکھتے ہیں اور کاروبار کسی اور قسم کا کرتے ہیں ۔ پانچویں بات جو پہت اہم ہے وہ یہ کہ اپنا کاروبار اللہ کے ساتھ کریں پھر دیکھیں دن دگنی رات چگنی کاروبار ترقی کرے گا۔ ہم کاروبار اپنی ضروریات زندگی یعنی اپنے اخراجات کے حصول کے لئے کرتے ہیں پھر نہ خرچے پورے ہوتے ہیں اور نہ مدن ہوتی ہے ۔ جو لوگ کاروبار اللہ کے ساتھ کرتے ہیں وہ مالی اور روحانی طور پر ترقی کرتے ہیں ۔ خری بات کہ تجارت سنت رسول ۖ کے مطابق کریں۔ توکل و گمان صرف اللہ پر کریں ۔ محققین دوسری اقوام کے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ تجارت میں نو حصے روزی زیادہ ہے۔ جبکہ اسلام نے ہمیں سیکھایا کہ تمام نبیوں نے تجارت کی اور انہوں نے کسی بھی تجارت میں سٹیٹس کو نہیں دیکھا بلکہ اس وقت کی ضرورت اور علاقے کی ضرورت کو دیکھا۔ ہمارے نبی اکرمۖ جو سب انسانیت میں اعلی شان والے پ نے بکریوں کی تجارت کی۔ اب ہمارے ہاں کوئی یہ کاروبار کرے تو ہم کیاکیا باتیں کرتے ہیں ۔ یہ سوچ ہماری ہی زوال کی نشانی ہے۔ یہودیوں نے اسلام کی ایک چیز ہی مانی تجارت ہے، اب دیکھیں ہم نے کوئی یہودی اپنی تیرہ سالہ دیار غیر کی زندگی میں کسی کمپنی میں نہیں دیکھا۔ یہودی اور چائینز کے علاوہ ہمارے افغانی اور پٹھان بھائی بھی تجارت کرتے ہیں کوئی ملازمت نہیں۔ حالانکہ اتنے پڑھے لکھے تو نہیں ہوتے۔ لیکن توکل کی معراج پر ہیں۔ میمن لوگ نوکری نہیں کرتے۔ یہ دورحاضر کی اقوام ہیں ۔ اس لئے اللہ سے اپنے توکل کے درجہ کو بڑھانے کیلئے لازمی طور پر درجہ بالا باتوں کو مدنظر رکھ کر کاروبار کرنا چاہئے ۔ اللہ ہماری مدد کرے۔ مین ثمہ مین
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here